Thursday 18 June 2020

رتی جھیل(قسط نمبر-9)


رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل
 گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گاؤں تک پہنچے تھے۔
اگلی صبح کا نظارہ کیمپ کے باہر کا دلکش تھا ۔صرف ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی حمد کرتی آوازیں کانوں میں سنائی دیتی تھی،پاس بہتی ندی سے اپنا منہ ہاتھ دھویا جس کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔
صبح کے 8 بج چکے تھے۔ہمارا گائیڈ "یاسر "بھی کیمپ میں پہنچ گیا تھا ،میرے ساتھ کے دو دوستوں کی ہمت جواب دے چکی تھی اس لئے ہم ان کو وہاں کیمپ میں چھوڑ کر "رتی جھیل" کی طرف نکل پڑے۔
سفر کا جیسے آغاز ہوا سرسبز میدان سفید میدانوں میں تبدیل ہوگئے اور ہر پہاڑ برف کی چادر اوڑے ہوا تھا۔جس پر ہائیک کرنا مشکل تھا کیونکہ ہر قدم پر پاؤں پھسلنے لگنے تھے۔
راستہ انتہائی دشوار تھا،کیونکہ برف ابھی تک پہاڑوں پر جمی ہوئی تھی۔
ہمیں سفر کرتےہوئے 2گھنٹے ہوئےتھے لیکن جھیل تک کا فاصلہ 5کلومیڑ کا باقی تھا ۔گائیڈ ہمیں ایک پہاڑ کی اوپر سے لے کر جارہا تھا اور بلندی پر جاکر ساتھ بہتی ندی اب نظر سےاوجھل ہوگئی تھی۔
"یاسر"ہمارا گائیڈ کافی آگے چلی جارہا تھا اور ہم اس کو آواز لگاتے کہ یاسر بھائی اور کتنی دورہے "رتی جھیل" تو وہ ہماری ہمت بڑھانے کے لئے بس یہ کہتا کہ اس پہاڑ کے پیچھے جھیل ہے یہ سن کر ہم جلدی جلدی اپنے قدم بڑھاتے لیکن ایک پہاڑ کے بعد دوسرا پہاڑ دوسرے پہاڑ سے بلند ہوتے جاتا ۔
ہم چلتے جا رہے تھے برف کے پہاڑ اور گلیشئر سے راستہ انتہائی دشوار ہوتا جا رہا تھا۔دوران سفر ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ہمیں ایک ایسا گلیشئیر پار کرنا تھا جس کے نیچے ندی تھی یہ منظر دیکھ کر میں نے "یاسر بھائی" سے کہا کے اس کو پار کرنا میرے لئے نہ ممکن ہے کیونکہ ندی کا بہاؤ بہت تیز ہے اور مجھے خوف ہے کہ یہ گلیشئر ٹوٹ نہ جائے،یاسر بھائی نے تسلی دی کے ایسی کوئی بات نہیں مَیں آپ کو پار کرواتاہوں میرے پیچھے پیچھے آجائیں،ہم اپنے گائیڈ سے قدم بہ قدم ملا کر چلنے لگے۔
آخر کار  چلتےچلتے"یاسر" ہمیں ایک پہاڑ پر لےگیا جس کی اونچائی کافی بلند تھی اس پہاڑ سے دوردورکے  "رتی گلی کاٹریک اور"وادی نیلم "کے بلند وبالا پہاڑ دیکھائی دے رہے تھے، یہاں سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ پوری زمیں خالی ہے اور آپ اس جہاں میں ایک ایسے پر سکون ماحول میں ہیں جہاں قدرت کے نظارے دیکھ کر اس خالق کی تخلیق پر دل گواہی دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کو بنانے والا خالق کس قدر خوبصورت ہوگا۔
  
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
آخر کار 7گھنٹوں کے بعد ہم اس پہاڑ پر پہنچے جہاں سے جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں گرتا ہوا دکھائی دینے لگا ہم اس گرتے پانی  کو دیکھتے دیکھتے میدان کی طرف آئے  اس میدان سے اوپر ایک پیالہ نما پہاڑ تھاجس کے تین طرف پہاڑ تھےاور ایک طرف جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں  ندی(جو ک ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے)میں جاتا ہے اور وہی پانی"دریائے نیلم" میں جاگرتاہےدوسرے الفاظ میں
"دریائے نیلم" کی خوبصورتی میں"رتی جھیل" سے آنے والے پانی کا بھی ہاتھ ہے۔
اس کا منظر بھی بہت خوبصورت تھا "یاسر" کا کہنا تھا کہ یہ میدان میں جو ندی کی صورت میں پانی جمع ہورہا ہے یہ جھیل نہیں اصل جھیل بہت خوبصورت ہے جو کہ اس آبشار کے پہاڑ کے اُوپر ہے یہ سن کر ہم میں سے ایک دوست نے کہا کہ جھیل دیکھ تو لی ہے اور ہمت نہیں جانے کی لیکن میرے کانوں میں یاسر کی آواز کونجنے لگی کہ "اصل جھیل خوبصورت وہ ہے" یہ سن کر میں نے اپنی سٹک اٹھائی اور میرے ساتھ دو دوست سمیع اور اختشام چلنے لگے پہاڑ کا راستہ بارش کی وجہ سے پھسلنے والا تھا سنبھل سنبھل کر ہم 45منٹ بعد ہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے،جھیل کو پہلی نظر دیکھ کرمیرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کے وادی نیلم آنے کی غرض پوری ہوگئی ۔جھیل انتہائی خوبصورت تھی۔
جھیل کا استقبال کرنے کےلئے پھولوں سے بچھی ہوئی چادر آپ کا استقال کررہی ہوتی اور یہ منظر پیش کر رہی ہوتی ہے کہ آپ اس جھیل کی گود میں جارہے ہیں۔
جھیل کے اطراف میں بلندوبالا پہاڑ جن پر برف کی چادر لپٹی ہوئی ہے،دیکھنے والوں کو اس خالق حقیقی کی تخلیق کی طرف توجہ پھیرتی ہے کہ بنانے والا ایسا خالق ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہےبادلوں کے سائے تلے یہ جھیل ایسا منظر پیش  کرتی ہے جیسے آپ کسی حسن کی دیوی کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ کے سامنے وہ سفید چادر لئے آپ سے باتیں کررہی ہے۔


یہاں پر چلتے ہوئے یہ خیال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ مالک نے چند منظر صرف آواراہ گردوں کے لئے تخلیق کئے ہیں۔کچھ ہوائیں ان کے جسموں کو چھونے کے لئے بنائی ہیں  جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہے روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ ایک اجنبی وادی میں شب گزارنے کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتاہے  تو اس کے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے  جو وہ زندگی میں پہلی بار دیکھتا ہے اور یہ وہی منطر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کےلئے صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے۔
"رتی جھیل" پہنچ کر میرے دوست فوٹو گرافی کرنے لگے میں انہیں چھوڑ کرجھیل کے ایک کنارے پتھر پر جا کر بیٹھ گیا اور اپنے تخیلات میں جھیل سے باتیں کرنے لگا کہ کچھ اس کی سنوں اور کچھ اپنی سناؤں تخیلات میں جھیل مجھ سے کہنے لگی۔
"عدیل دیکھو مجھے اللہ نے کیسی خوبصورتی سے بنایاہے مجھے تمھارے سمیت دیگر لوگ دور دور سے دیکھنے کے لئےآتے ہیں،دیکھو مجھے اللہ نے کیا خوبصورت بنایا ہے،میں بتانا چاہتی ہوں کے صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسان جو اشرف الخلوقات ہے وہ بھی میرےپاس آتے ہیں میں صرف تھوڑے عرصہ کے لئےجلوہ گر ہوتی ہوں پھر برف کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہوں۔"

Tuesday 16 June 2020

پہلا سفر کا آغاز وادی نیلم کی طرف (قسط نمبر-8)

رتی جھیل/برکاتیہ جھیل

رتی جھیل یا برکاتیہ جھیل ایک ہی نام ہیں،اس تک پہنچنے کے لئے ہم  صبح "کیرن" سے "دورایاں" آکر ناشتہ کیا جس کے بعد 10بجے ہم نے  اپنا سفر"دواریاں" سے "رتی جھیل" تک پیدل ہائیک کرتے سفر شروع کیا۔

 ہائیکنگ 

"دواریاں" سے ہم نے "رتی جھیل" کے لئے پیدل سفر شروع کیا کیونکہ اس وقت تک نہ تو سٹرک تعمیر ہوئی تھی اور نہ کوئی جیپ جاتی تھی ۔یہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ تھا پر انتہائی دشورار راستہ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ پہلی ہائیکنگ تھی لیکن میری بات سے وہ لوگ اتفاق کریں گے جنہوں نے 2010ءسے پہلے دواریاں سے "رتی جھیل" تک اپنا سامان اٹھا کر پیدل سفر کیا ہو۔
جب ہم نے پیدل سفر کیا تو مقامی لوگ کہتے تھے کہ آپ 4 گھنٹوں میں "رتی جھیل" تک پہنچ جائیں گے یہ سننے کے بعد میں نے کہا یہ کونسی ہائیکنگ ہوئی جس میں صرف 4 گھنٹے ہائیکنگ ہے میں نے تو ایسے ٹریک کے بارے میں سنا ہوا کے جہاں آپ کو اپنی منزل تک پہنچنے تک دو،دو دن بھی لگ جاتےہیں میرا یہ خیال سراسر غلط تھا کہ یہ ہائیکنگ صرف 4 گھنٹے کی ہے۔

جھیل کی طرف جب ہم نےسفر شروع کرنے لگے تو مقامی لوگوں نے کہا  کہ آپ یہاں سے گائیڈ لے جائیں کیونکہ راستہ دشوار کےساتھ ساتھ جھیل تلاش کرنے میں مدد دےگا جس پر ہم نے عرفان نامی گائیڈ کو ساتھ لیا جو وادی نیلم میں سیاحتی مقامات اور جھیلوں کا انسائیکلو پیڈیا تھا۔"دوارایاں" سے بائیں جانب کچی سٹرک"رتی جھیل" کو جارہی تھی،اس سٹرک کے ساتھ ساتھ ایک تیز بھاؤ والی ندی بھی موجود تھی جس کا پانی بڑی بڑی چٹانوں کو ٹکرانے کے بعد اور "دواریاں" کے پل کوکراس کرنے کے بعد "دریائے نیلم" میں جا ملتا ہے۔

اس پانی کی تیز رفتاری دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ شاید "رتی جھیل" ہی اس پانی کو قاصد بنا کر بیجھتی ہے اور پیغام دیتی ہےکہ دریائے نیلم کو جاکر جلدی سے پیغام دو کہ جہاں جہاں سے وہ گزرے میرے دیوانوں کو میری زیارت کیلئے بھیج دیں۔
ہم دوست بھی اس کی زیارت کرنے کےلئے پیدل "دواریاں" سے "رتی جھیل" کے لئے نکل چکے تھے۔کائل،فر،بن گھوڑ،جنگلی ڈھوڈا(جوکہ قریب قریب لوگاٹ کی طرح ہوتا)،جنگلی اخروٹ،دیودار اور برج کے درختوں سے اس سفر کا شروع ہوا،سڑک صرف ایک کلو میڑ تک نسبتاََ صحیح لیکن آگے سے ایڈوانچر بھرا رستہ تھا۔
رتی گلی ٹریک پر درختوں کا منظر
ایک طرف ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ندی کا شور مچاتا پانی اور دوسری طرف ان تمام مندرجہ بالا درخت  کی بھینی بھینی خوشبوئیں روح کی تازگی اور مسرت کا سامان فراہم کئے ہوئے تھیں۔
جب ہم نے سفر شروع کیا تو تقریبا ایک کلو میٹر تک راستہ چڑھائی کی طرح کا تھا جس پر چڑھنا بہت مشکل تھا ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاس20کلو وزنی بیگ ہو (جس میں آپ کا کیمپ،میٹرس،کھانے پینے کا سامان اور کپڑے ہوں)،لیکن ہمت کر کے چڑھےیہ سوچ کر کہ جھیل تک کاسفر تو صرف 4گھنٹےہے لیکن تین گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد بھی مقامی لوگوں سے پتا چلاکہ ابھی تین گھنٹے کا سفر ہے ۔ہر قدم پر جیسے آپ کو تھکن محسوس ہوتی اور دل میں یہ خیال آتا کہ واپس چلتے ہیں تو پکھڈندی کے اطراف بلند وبالا پہاڑ ندیوں کی صورت میں گلیلشیئر سے آئینہ کی طرح صاف پانی نکلتاہوا،ارادوں کو مضبوط کر دیتا کے کوئی بات نہیں یہ قدرت کےمناظر صدا دے رہے ہیں کے یہ جھیل تمھیں اپنی طرف بلا رہی ہے اور تم واپس جانے کا ارادہ کررہے ہو۔ اس سفر میں ہمارے ارادوں کو مضبوط کرنےمیں سب سے زیادہ ہاتھ جھیل کےطرف جاتے ہوئے آبشاروں،برفیلے پہاڑ اور گلیشئر کا بہت ہاتھ تھا کیونکہ وہ احساس دلاتےہیں کہ جس جھیل کا راستہ اتنا حسین ہےاس کی جھیل کیسی ہوگی۔ہر منظر ہماری تھکن کو دور کردیتا تھا۔
"دورایاں"سے نکلتے وقت سورج چمک رہا تھا اور کہیں کہیں بادل تھے لیکن 3گھنٹے ہائیک کرنےکےبعد بادل گہرے ہوتے جاتے تھے،سورج اور بادلوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری تھا،یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد آپ تخیلات کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کائنات کے بنانے والے کی حمدوثناء کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
میں پہاڑوں پر لگے اونچے برج اور دیودار کے درخت دیکھ رہا تھا ،پھر نگاہ بائیں جانب پھیرتے ہوئے نیچے ندی کا بہتا پانی اور اس ندی کےکنارے پھولوں کی بیچھی ہوئی چادر،ہمیں ہائیک کرتے ہوئے 5گھنٹے ہوگئے تھے اور ہم نے بمشکل 10کلومیٹر کافاصلہ طہ کیا تھا۔
ہمارے گائیڈکا گھر بھی اسی ٹریک پر تھا ہمیں ایک چٹان پر آرام کی غرض سے بیٹھا کر کہنے لگا کہ میں اپنے گھر سے ہو کر آتا ہوں، قریب 20 منٹ کے بعد وہ ہمارے لئے "کشمیری لسی" لے آیا جس کو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ یہ بکری کے دودھ سے بنائی جاتی ہے،جس کو پی کر انسان چست ہوجاتا ہے اس کو ہماری زبان  میں "انرجی ڈرنک" کہتے ہیں اس کو پی کر ہم نے دوبارہ چلنا شروع کیا ۔
شام4بجے کا وقت ہوگیا تھا "رتی جھیل" سے 8کلو میٹر پہلے ایک گاؤں "دودمیال" آتا ہے جہاں ہم نے رات کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ،پاس کے گھروں سے کشمیری بچے ہمارے پاس دوڑ کر آئے اور ہمارا سامان ہم سے پکڑ کر کہنے لگے کہ آپ ہمارے پاس سیزن کے سب سے پہلے مہمان ہیں ہم آپ کو خوش آمد کہتےہیں۔
کشمیری بچے ہمارا سامان اٹھائے ہوئے
 شام کافی ہوگئی تھی اور"رتی جھیل" تک کا فاصلہ 8کلو میٹر کا طہ کرنا اور پڑا تھا،چنانچہ ہم نے رات "دودمیال" گاؤں میں روکنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم نے اپنا کیمپ گاؤں سے تھوٹے سے فاصلے پر سرسبز پہاڑں کے درمیان ہم نے لگایا ۔جہاں ساتھ بہتی ندی کا شور صاف سنائی دیتاتھا ۔

کیمپ کے باہر کا منظر "دودمیال" گاؤں کے بچوں کے ساتھ


Sunday 14 June 2020

sarfaraz will never betray you

sarfaraz will never betray you



I just opened my twitter account as usual after lunch and the top trend is running #sushantsinghrajuput




I dont know him by name  but suddenly i recognized when i saw his picture.He was one of the prominent actor from indian movies.

And  suddenly the  sound began in  my ears " sarfaraz kabhi dhuka nai dega ( sarfaraz will never betray you)''.
It was a dialogue of famous movie "pk" in which he played  a role of Pakistani boy.
But when i listened news on twitter top trend "sushant singh rajput commits sucide at Mumbai home."
And Mumbai police admitted "Bollywood actor sushant rajput was hanging at his Mambai home and he passed away."
Sushant Ringh Rajput  gave us a lesson  in the film "M.S.Dhoni" that never give up and in his latest movie ,The man who  Has given A massage not to commit sucide in "Chichore" movie has committed Sucide. you will be missed' can't belive  he is no more with us.


The Patna-born Rajput became an instant hit with his good looks and boyish charm when he was noticed in the famous soap on Zee TV's 'Pavitra Rishta' in 2009. He made his Bollywood
debut in the buddy drama 'Kai Po Che!' in 2013, for which he also received a Filmfare nomination for Best Male Debut. The same year, he was also seen in the romantic comedy 'Shuddh Desi Romance' 2013, which was followed by the titular detective in the action thriller 'Detective Byomkesh Bakshy!' in 2015
Sushant Singh 
movies
1.kai Po Che
2.shuddh desi romance
3.pk
4.detective byomkesh bakhsy (2015)
5. M.S.Dhoni:the untold story (2016)
6. Raabta (2017)
7. Welcome to New York.(2018)
8.kedarnath (2018)
9.Chichhore (2019)
10. Dil bechara (2020)



Saturday 13 June 2020

ایکٹیمرا انجیکشن کی اصل حقیقت

 ایکٹیمرا انجیکشن(Actemra)


پچھلے دنوں ایک نیوز نشر ہوئی کے پاکستان میں’’ ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ جو کورونا کے مریضان کےعلاج کے لئے استعمال ہوتا ہے،جس کی پہلی قیمت20.000روپےتھی،اب 3لاکھ روپےہے اور بلیک میں سیل ہورہا ہے۔
سب سے پہلےتو یہ کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کورونا کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس ملک کی طرف سے طرح طرح کی ویکسین کو کورونا کے مریضان کےلئے مفید قرار دیا جاتا ہے۔
مثلاََ ہمارے پاکستان میں جب کرونا کا ایک بھی مریض نہیں تھا تو بعض سوشل میڈیا پر یہ خبر  گردش کرنے لگی کہ "پیاز" کورونا کے مریض کے لئے مفید ہے،پھر جب پاکستان میں کورونا کا وار شروع ہوا تو بعض پیر حضرات بھی شامل سامنے آئے جنہوں نے اس کے لئے اس کے لئے شرطیہ علاج دیافت کرنے کا دعویٰ کیا اور اپنا کاروبار خوب چمکایا۔
اس کے بعد ’’کلونجی،ادرک‘‘ کے پانی کی بات شروع ہوئی کے یہ کورونا کے مریض کو پلائے جانے سے کورونا کا مریض صحت یاب ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد ملیریا  کے مریضوں کے علاج کے لئے ’’کلورین ویکسین‘‘کو ہی ’’کوڈ19 ویکسین‘‘ کا نام دے دیا گیا ،بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ’’سنامکی‘‘ جڑی بوٹی کو ہی کرونا کے مریضوں کا واحد حل قرار دے دیا  گیا  اس بات کا پچھلے دنوں مجھے بھی  مشاہدہ ہوا کے میں دواخانہ سے پٹھکری لینے گیا تو وہاں پر"سنا مکی" لینے والوں کا رش لگاہوا تھا۔خیرڈاکٹرزنے اس کا استعمال کرنا انسانی صحت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اس پر تبصرہ کرتےہوئے ماہرغذائیت نیلم اعجاز کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ٹوٹکا شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’سنامکی‘‘ سے کروناکا علاج ہے ۔ان کاکہناتھا کہ ’’سنامکی قہوے کی تاثیر گرم ہےاس لئے جب اسےاستعمال کیا جاتاہے تواس سے مریض کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے جس سےاس کے جسم میں اس کی نمکیات میں کمی واقع ہوجاتی ہے،جوکورونامریض کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنامکی بلڈ پریشر،گردے اور جگر کےمریضوں کےلئے سنامکی کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہوسکتاہے۔‘‘

سنامکی کی شکل

اور اب ایک اور علاج ہماری سائنسدان عوام نے دریافت کیااور وہ ایکٹیمرا انجیکشن ہے۔یہ وہ انجیکشن ہے جس کانام آج کل ہر شخص کی زبان پر ہے اوراس کی مقبولیت کا عالم یہ بھی  ہے کہ ہر کوئی اس کو اس کی اصل قیمت سے زائد پیسے دینے کے لئے تیار ہیں۔
ایکٹمرا انجیکشن مارکیٹ میں نایاب ہونے کی وجہ
    ایکٹیمرا انجیکشن 
"بی بی سی اردو" کی ویب سائیٹ پر ایک مضمون ایکٹمرا کے متعلق شائع ہوا جس میں انہوں نے ڈاکڑ سلمان ایاز  جن کا تعلق میوہسپتال لاہور سےہے ان کا انٹرویو شائع کیا جن میں ان کاکہنا تھا کہ یہ انجیکشن کورونا کے مریضوں میں اعضاء کی سوزش کوروکنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے،تاکہ ان کے اعضاء کو نقصان نہ پہنچے۔انہوں نےمزید بتایا کہ وائرس مریض کے جسم پر حملہ کرتے ہوئے ان کے بیشتر اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہےجس سے سپسیز ہو جاتا ہے اوربعض اوقات جان لیواہوتا ہے۔اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پہلے اس انجیکشن کی قیمت 50ہزار روپے تھی لیکن اب یہ انجیکشن بلیک میں 3لاکھ روپے تک فروخت کیا جارہاہے۔ان کامزید کہنا تھا کہ یہ انجیکشن صرف شدید مریضوں پر استعمال کیا جاتاہے۔اور 3دن مسلسل مریض کو لگایا جاتاہے۔
 وزارت صحت کا اعلان
ڈاکڑ یاسمین کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہزار مریضوں پر اس کا ٹرائل شروع کررہے ہیں جس کے لئے ہم میو ہسپتال کے ڈاکڑوں کواس کا سٹاک مہیا کریں گے۔

اصل ایکٹیمرا انجیکشن کی پہچان
ڈیلی پاکستان نیوز کے ایک اینکر ابتسام چوہدری صاحب نے جنرل ہسپتال کےایک ڈاکڑ عرفان صاحب کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ مارکیٹ میں اس وقت کئی نقلی ایکٹیمرا انجیکشن آئے ہیں اصل انجیکشن کی پہچان کیا ہے جس میں ڈاکٹر عرفان صاحب نے بتایا کہ ’’پوری دنیا میں (Roche)کپنی سپلائی کرتی ہے۔اور اس کی ویکسین پر(Roche) کپمنی کالوگو لگا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی سے بھی انجیکشن منگوائے جارہے ہیں لیکن وہ ایکٹیمرا انجیکشن نہیں ہے۔‘‘
         (Roche)کپمنی کا لوگو

https://www.facebook.com/DailyPakistan.OfficialPage/videos/936218043507470/


اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ کورونا کی ویکسین نہیں ہے، صرف علاج میں مدد دینے کے لئےاستعمال ہوتا ہے جو مریض  تاکہ مریضوں کےاعضاء کو سوزش نہ ہو۔ اس انجیکشن کو کورونا مریضان کا واحد حل قرار دینے کی وجہ سے جس شخص کو ضرورت ہوتی وہ بھی اس سے محروم رہ جاتاہے اور اصل حق دارکےہاتھ سےدورہے۔
ڈاکڑز نے پھر آگاہ کیا کہ حالات ایسے نہیں کے عوام ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے پھریں اصل چیز احتیاط اور احتیاط سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتاہے براہ کرم عوام ماسک کا استعمال کریں اور گھروں سے بلاوجہ نہ نکلیں ۔

Way to dwarian.(neeelum valley)

پہلے سفر کا آغاز وادی نیلم کی طرف(قسط نمبر-7)

نیلم گاؤں سےدواریاں کے لئے سفر

اپنے پچھلے بلاگ میں وادی نیلم کے سب سےخوبصورت گاؤں" نیلم گاؤں" کا ذکر کیا تھا،اس بلاگ میں "دواریاں" کا ذکر کروں گا اور جب "دواریاں" کا ذکر ہو تو ایک ہائیکر کا ذہن سب سے پہلے"رتی گلی" کی طرف جاتا ہے ،لیکن قبل اس کےکہ مَیں"رتی گلی" کا ذکر کروں "نیلم گاؤں"سے "دواریاں" گاؤں تک کا سفر بیان کروں گا۔
نیلم گاؤں سے دواریاں
نیلم گاؤں میں ایک حسین رات گزارنے کے بعد صبح کا نظارہ بھی انتہائی دلکش تھا مَیں سمجھ رہا تھا کے پورےگاؤں میں سب سےپہلے میں بیدار ہوا ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا ،مَیں جیسے ہی کیمپ سے باہر نکلا تو چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو اپنے اپنے روزمرہ کی مصروفیات میں مصروف دیکھا ایک طرف بچوں کو سکول کی وردی پہنے سکول جاتےتو دوسری طرف بزرگوں کو مجلس لگائے دیکھا اور عورتوں کو مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا ۔
اس نظارے کو دیکھنے کےبعد پہاڑوں کےییچ میں سے سورج کی کرنین چیرتی ہوئی ہمارےکیمپ میں پہنچ رہی تھیں جو یہ صدا دے رہیں تھی کہ اَب یہاں سے کوچ کرنے کا وقت آچکا ہے ابھی تمھیں اس وادی کے حسین نظاروں کے منظر سے پردہ اٹھانا ہے۔
ہم نے جلدی جلدی اپنا کیمپ سمیٹا اور اپنے اگلے سفر (دواریاں)کے لئے تیاری کی۔
نیلم گاؤں سے دواریاں کے لئے سفر

"دواریاں" 
دو
دواریاں مظفر آباد سے 106کلومیڑ دوری پر واقع ہےجبکہ آٹھمقام سے اس کا فاصلہ22کلو میڑ ہے۔"دواریاں" گاؤں سطح سمندر سے 6000فٹ بلندی پر واقع ہے۔ "دواریاں" گاؤں کو" رتی گلی" کا پہلا بیس کیمپ بھی کہا جاتاہے۔

رتی گلی ٹریک 

نیلم گاؤں سےدواریاں کے لئے سفر

دواریاں سے بائیں جانب ایک روڑ آپ کو جاتی ہوئی دیکھائی دے گی جس پر لکھا ہوگا کہ" رتی گلی 18 کلومیڑ فاصلہ پر" لیکن اگر آپ اس سائن بورڈ کی زبانی پیدل سفر کرنے کا سوچ رہیں تو اس کی بات  کا یقین نہ کریں کیونکہ یہ ٹریک 18 گھنٹے کا ثابت ہوسکتاہے کیونکہ "رتی گلی" کا راستہ انتہائی دشوار ہے۔اوراگر آپ جیپ پر سفر کررہے ہیں تو یقیناََ یہ ایسا راستہ ہے جس کاہر پہاڑ،ہر آبشاراورہر گلیشئر اور اس کی ندیاں آپ کے سفر کو حسین بنا دیں گی اور آپ کا سفر ایسے پورا ہوگا جیسے آپ خواب دیکھ رہے ہوں۔

Friday 12 June 2020

پہلا سفر وادی نیلم کی طرف (پانچویں قسط)

کیرن

میں اپنے پچھلے بلاگ میں وادی نیلم کے صدر مقام آٹھمقام تک پہنچنے کا ذکر کر آیا ہوں،جہاں ہم نے وادی نیلم کے کنارے ہوٹل میں رات گزاری اور پھر اپنے اگلے دن "کشمیر ی باقرخانی" اور چائے کے ساتھ ہم نے اپنے اگلے دن کا آغاز کیا ،ہماری اگلی منزل کیرن تھی۔
کیرن
کیرن کا نقشہ
کیرن کا منظر
کیرن مظفر آباد سے93کلو میڑکے فاصلے پرہےجبکہ آٹھمقام سے اس کا فاصلہ 9کلو میٹر ہے،یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس جگہ کو "کیرن سیکٹر" بھی کہتے ہیں، جہاں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ کیرن اور آزاد کشمیر کا علاقہ کیرن کا فاصلہ 100فٹ رہ جاتا ہے اور دونوں کےدرمیان وادی نیلم کا "دریائے نیلم" لائین آف کنڑول کا کام دیتاہے۔
کیرن سطح سمندر سے 5000فٹ بلند ہے،کیرن کی تاریخ میں ذکر آتاہےکہ 10ویں صدی میں "راجہ بہادر "نے اس شہر کو آباد کیا۔
کیرن کو دیکھنے کےبعد ہم نے یہاں سے 2.5کلومیٹر دور گاؤں جس کو نیلم گاؤں کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے "نیلم گاؤن نہیں دیکھا اس نے وادی نیلم نہیں دیکھی "وہاں جانے کا فیصلہ کیا ،نیلم  گاؤں جانے کےلئے ہم نے جیپ کا سہارا لیا اور آدھے گھنٹے کے بعد ہم سہ پہر 12بجے نیلم گاؤں پہنچ گئے۔نیلم گاؤں کی خوبصورتی واقعی میں اس کےدیکھنے والوں کو کو سحر میں مبتلا کردیتی ہے،اس گاؤں کا ذکر میں اپنے اگلے بلاگ میں کروں گا۔

 

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...