Tuesday 16 June 2020

پہلا سفر کا آغاز وادی نیلم کی طرف (قسط نمبر-8)

رتی جھیل/برکاتیہ جھیل

رتی جھیل یا برکاتیہ جھیل ایک ہی نام ہیں،اس تک پہنچنے کے لئے ہم  صبح "کیرن" سے "دورایاں" آکر ناشتہ کیا جس کے بعد 10بجے ہم نے  اپنا سفر"دواریاں" سے "رتی جھیل" تک پیدل ہائیک کرتے سفر شروع کیا۔

 ہائیکنگ 

"دواریاں" سے ہم نے "رتی جھیل" کے لئے پیدل سفر شروع کیا کیونکہ اس وقت تک نہ تو سٹرک تعمیر ہوئی تھی اور نہ کوئی جیپ جاتی تھی ۔یہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ تھا پر انتہائی دشورار راستہ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ پہلی ہائیکنگ تھی لیکن میری بات سے وہ لوگ اتفاق کریں گے جنہوں نے 2010ءسے پہلے دواریاں سے "رتی جھیل" تک اپنا سامان اٹھا کر پیدل سفر کیا ہو۔
جب ہم نے پیدل سفر کیا تو مقامی لوگ کہتے تھے کہ آپ 4 گھنٹوں میں "رتی جھیل" تک پہنچ جائیں گے یہ سننے کے بعد میں نے کہا یہ کونسی ہائیکنگ ہوئی جس میں صرف 4 گھنٹے ہائیکنگ ہے میں نے تو ایسے ٹریک کے بارے میں سنا ہوا کے جہاں آپ کو اپنی منزل تک پہنچنے تک دو،دو دن بھی لگ جاتےہیں میرا یہ خیال سراسر غلط تھا کہ یہ ہائیکنگ صرف 4 گھنٹے کی ہے۔

جھیل کی طرف جب ہم نےسفر شروع کرنے لگے تو مقامی لوگوں نے کہا  کہ آپ یہاں سے گائیڈ لے جائیں کیونکہ راستہ دشوار کےساتھ ساتھ جھیل تلاش کرنے میں مدد دےگا جس پر ہم نے عرفان نامی گائیڈ کو ساتھ لیا جو وادی نیلم میں سیاحتی مقامات اور جھیلوں کا انسائیکلو پیڈیا تھا۔"دوارایاں" سے بائیں جانب کچی سٹرک"رتی جھیل" کو جارہی تھی،اس سٹرک کے ساتھ ساتھ ایک تیز بھاؤ والی ندی بھی موجود تھی جس کا پانی بڑی بڑی چٹانوں کو ٹکرانے کے بعد اور "دواریاں" کے پل کوکراس کرنے کے بعد "دریائے نیلم" میں جا ملتا ہے۔

اس پانی کی تیز رفتاری دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ شاید "رتی جھیل" ہی اس پانی کو قاصد بنا کر بیجھتی ہے اور پیغام دیتی ہےکہ دریائے نیلم کو جاکر جلدی سے پیغام دو کہ جہاں جہاں سے وہ گزرے میرے دیوانوں کو میری زیارت کیلئے بھیج دیں۔
ہم دوست بھی اس کی زیارت کرنے کےلئے پیدل "دواریاں" سے "رتی جھیل" کے لئے نکل چکے تھے۔کائل،فر،بن گھوڑ،جنگلی ڈھوڈا(جوکہ قریب قریب لوگاٹ کی طرح ہوتا)،جنگلی اخروٹ،دیودار اور برج کے درختوں سے اس سفر کا شروع ہوا،سڑک صرف ایک کلو میڑ تک نسبتاََ صحیح لیکن آگے سے ایڈوانچر بھرا رستہ تھا۔
رتی گلی ٹریک پر درختوں کا منظر
ایک طرف ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ندی کا شور مچاتا پانی اور دوسری طرف ان تمام مندرجہ بالا درخت  کی بھینی بھینی خوشبوئیں روح کی تازگی اور مسرت کا سامان فراہم کئے ہوئے تھیں۔
جب ہم نے سفر شروع کیا تو تقریبا ایک کلو میٹر تک راستہ چڑھائی کی طرح کا تھا جس پر چڑھنا بہت مشکل تھا ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاس20کلو وزنی بیگ ہو (جس میں آپ کا کیمپ،میٹرس،کھانے پینے کا سامان اور کپڑے ہوں)،لیکن ہمت کر کے چڑھےیہ سوچ کر کہ جھیل تک کاسفر تو صرف 4گھنٹےہے لیکن تین گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد بھی مقامی لوگوں سے پتا چلاکہ ابھی تین گھنٹے کا سفر ہے ۔ہر قدم پر جیسے آپ کو تھکن محسوس ہوتی اور دل میں یہ خیال آتا کہ واپس چلتے ہیں تو پکھڈندی کے اطراف بلند وبالا پہاڑ ندیوں کی صورت میں گلیلشیئر سے آئینہ کی طرح صاف پانی نکلتاہوا،ارادوں کو مضبوط کر دیتا کے کوئی بات نہیں یہ قدرت کےمناظر صدا دے رہے ہیں کے یہ جھیل تمھیں اپنی طرف بلا رہی ہے اور تم واپس جانے کا ارادہ کررہے ہو۔ اس سفر میں ہمارے ارادوں کو مضبوط کرنےمیں سب سے زیادہ ہاتھ جھیل کےطرف جاتے ہوئے آبشاروں،برفیلے پہاڑ اور گلیشئر کا بہت ہاتھ تھا کیونکہ وہ احساس دلاتےہیں کہ جس جھیل کا راستہ اتنا حسین ہےاس کی جھیل کیسی ہوگی۔ہر منظر ہماری تھکن کو دور کردیتا تھا۔
"دورایاں"سے نکلتے وقت سورج چمک رہا تھا اور کہیں کہیں بادل تھے لیکن 3گھنٹے ہائیک کرنےکےبعد بادل گہرے ہوتے جاتے تھے،سورج اور بادلوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری تھا،یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد آپ تخیلات کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کائنات کے بنانے والے کی حمدوثناء کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
میں پہاڑوں پر لگے اونچے برج اور دیودار کے درخت دیکھ رہا تھا ،پھر نگاہ بائیں جانب پھیرتے ہوئے نیچے ندی کا بہتا پانی اور اس ندی کےکنارے پھولوں کی بیچھی ہوئی چادر،ہمیں ہائیک کرتے ہوئے 5گھنٹے ہوگئے تھے اور ہم نے بمشکل 10کلومیٹر کافاصلہ طہ کیا تھا۔
ہمارے گائیڈکا گھر بھی اسی ٹریک پر تھا ہمیں ایک چٹان پر آرام کی غرض سے بیٹھا کر کہنے لگا کہ میں اپنے گھر سے ہو کر آتا ہوں، قریب 20 منٹ کے بعد وہ ہمارے لئے "کشمیری لسی" لے آیا جس کو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ یہ بکری کے دودھ سے بنائی جاتی ہے،جس کو پی کر انسان چست ہوجاتا ہے اس کو ہماری زبان  میں "انرجی ڈرنک" کہتے ہیں اس کو پی کر ہم نے دوبارہ چلنا شروع کیا ۔
شام4بجے کا وقت ہوگیا تھا "رتی جھیل" سے 8کلو میٹر پہلے ایک گاؤں "دودمیال" آتا ہے جہاں ہم نے رات کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ،پاس کے گھروں سے کشمیری بچے ہمارے پاس دوڑ کر آئے اور ہمارا سامان ہم سے پکڑ کر کہنے لگے کہ آپ ہمارے پاس سیزن کے سب سے پہلے مہمان ہیں ہم آپ کو خوش آمد کہتےہیں۔
کشمیری بچے ہمارا سامان اٹھائے ہوئے
 شام کافی ہوگئی تھی اور"رتی جھیل" تک کا فاصلہ 8کلو میٹر کا طہ کرنا اور پڑا تھا،چنانچہ ہم نے رات "دودمیال" گاؤں میں روکنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم نے اپنا کیمپ گاؤں سے تھوٹے سے فاصلے پر سرسبز پہاڑں کے درمیان ہم نے لگایا ۔جہاں ساتھ بہتی ندی کا شور صاف سنائی دیتاتھا ۔

کیمپ کے باہر کا منظر "دودمیال" گاؤں کے بچوں کے ساتھ


No comments:

Post a Comment

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...