Thursday 18 June 2020

رتی جھیل(قسط نمبر-9)


رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل
 گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گاؤں تک پہنچے تھے۔
اگلی صبح کا نظارہ کیمپ کے باہر کا دلکش تھا ۔صرف ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی حمد کرتی آوازیں کانوں میں سنائی دیتی تھی،پاس بہتی ندی سے اپنا منہ ہاتھ دھویا جس کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔
صبح کے 8 بج چکے تھے۔ہمارا گائیڈ "یاسر "بھی کیمپ میں پہنچ گیا تھا ،میرے ساتھ کے دو دوستوں کی ہمت جواب دے چکی تھی اس لئے ہم ان کو وہاں کیمپ میں چھوڑ کر "رتی جھیل" کی طرف نکل پڑے۔
سفر کا جیسے آغاز ہوا سرسبز میدان سفید میدانوں میں تبدیل ہوگئے اور ہر پہاڑ برف کی چادر اوڑے ہوا تھا۔جس پر ہائیک کرنا مشکل تھا کیونکہ ہر قدم پر پاؤں پھسلنے لگنے تھے۔
راستہ انتہائی دشوار تھا،کیونکہ برف ابھی تک پہاڑوں پر جمی ہوئی تھی۔
ہمیں سفر کرتےہوئے 2گھنٹے ہوئےتھے لیکن جھیل تک کا فاصلہ 5کلومیڑ کا باقی تھا ۔گائیڈ ہمیں ایک پہاڑ کی اوپر سے لے کر جارہا تھا اور بلندی پر جاکر ساتھ بہتی ندی اب نظر سےاوجھل ہوگئی تھی۔
"یاسر"ہمارا گائیڈ کافی آگے چلی جارہا تھا اور ہم اس کو آواز لگاتے کہ یاسر بھائی اور کتنی دورہے "رتی جھیل" تو وہ ہماری ہمت بڑھانے کے لئے بس یہ کہتا کہ اس پہاڑ کے پیچھے جھیل ہے یہ سن کر ہم جلدی جلدی اپنے قدم بڑھاتے لیکن ایک پہاڑ کے بعد دوسرا پہاڑ دوسرے پہاڑ سے بلند ہوتے جاتا ۔
ہم چلتے جا رہے تھے برف کے پہاڑ اور گلیشئر سے راستہ انتہائی دشوار ہوتا جا رہا تھا۔دوران سفر ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ہمیں ایک ایسا گلیشئیر پار کرنا تھا جس کے نیچے ندی تھی یہ منظر دیکھ کر میں نے "یاسر بھائی" سے کہا کے اس کو پار کرنا میرے لئے نہ ممکن ہے کیونکہ ندی کا بہاؤ بہت تیز ہے اور مجھے خوف ہے کہ یہ گلیشئر ٹوٹ نہ جائے،یاسر بھائی نے تسلی دی کے ایسی کوئی بات نہیں مَیں آپ کو پار کرواتاہوں میرے پیچھے پیچھے آجائیں،ہم اپنے گائیڈ سے قدم بہ قدم ملا کر چلنے لگے۔
آخر کار  چلتےچلتے"یاسر" ہمیں ایک پہاڑ پر لےگیا جس کی اونچائی کافی بلند تھی اس پہاڑ سے دوردورکے  "رتی گلی کاٹریک اور"وادی نیلم "کے بلند وبالا پہاڑ دیکھائی دے رہے تھے، یہاں سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ پوری زمیں خالی ہے اور آپ اس جہاں میں ایک ایسے پر سکون ماحول میں ہیں جہاں قدرت کے نظارے دیکھ کر اس خالق کی تخلیق پر دل گواہی دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کو بنانے والا خالق کس قدر خوبصورت ہوگا۔
  
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
آخر کار 7گھنٹوں کے بعد ہم اس پہاڑ پر پہنچے جہاں سے جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں گرتا ہوا دکھائی دینے لگا ہم اس گرتے پانی  کو دیکھتے دیکھتے میدان کی طرف آئے  اس میدان سے اوپر ایک پیالہ نما پہاڑ تھاجس کے تین طرف پہاڑ تھےاور ایک طرف جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں  ندی(جو ک ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے)میں جاتا ہے اور وہی پانی"دریائے نیلم" میں جاگرتاہےدوسرے الفاظ میں
"دریائے نیلم" کی خوبصورتی میں"رتی جھیل" سے آنے والے پانی کا بھی ہاتھ ہے۔
اس کا منظر بھی بہت خوبصورت تھا "یاسر" کا کہنا تھا کہ یہ میدان میں جو ندی کی صورت میں پانی جمع ہورہا ہے یہ جھیل نہیں اصل جھیل بہت خوبصورت ہے جو کہ اس آبشار کے پہاڑ کے اُوپر ہے یہ سن کر ہم میں سے ایک دوست نے کہا کہ جھیل دیکھ تو لی ہے اور ہمت نہیں جانے کی لیکن میرے کانوں میں یاسر کی آواز کونجنے لگی کہ "اصل جھیل خوبصورت وہ ہے" یہ سن کر میں نے اپنی سٹک اٹھائی اور میرے ساتھ دو دوست سمیع اور اختشام چلنے لگے پہاڑ کا راستہ بارش کی وجہ سے پھسلنے والا تھا سنبھل سنبھل کر ہم 45منٹ بعد ہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے،جھیل کو پہلی نظر دیکھ کرمیرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کے وادی نیلم آنے کی غرض پوری ہوگئی ۔جھیل انتہائی خوبصورت تھی۔
جھیل کا استقبال کرنے کےلئے پھولوں سے بچھی ہوئی چادر آپ کا استقال کررہی ہوتی اور یہ منظر پیش کر رہی ہوتی ہے کہ آپ اس جھیل کی گود میں جارہے ہیں۔
جھیل کے اطراف میں بلندوبالا پہاڑ جن پر برف کی چادر لپٹی ہوئی ہے،دیکھنے والوں کو اس خالق حقیقی کی تخلیق کی طرف توجہ پھیرتی ہے کہ بنانے والا ایسا خالق ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہےبادلوں کے سائے تلے یہ جھیل ایسا منظر پیش  کرتی ہے جیسے آپ کسی حسن کی دیوی کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ کے سامنے وہ سفید چادر لئے آپ سے باتیں کررہی ہے۔


یہاں پر چلتے ہوئے یہ خیال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ مالک نے چند منظر صرف آواراہ گردوں کے لئے تخلیق کئے ہیں۔کچھ ہوائیں ان کے جسموں کو چھونے کے لئے بنائی ہیں  جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہے روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ ایک اجنبی وادی میں شب گزارنے کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتاہے  تو اس کے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے  جو وہ زندگی میں پہلی بار دیکھتا ہے اور یہ وہی منطر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کےلئے صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے۔
"رتی جھیل" پہنچ کر میرے دوست فوٹو گرافی کرنے لگے میں انہیں چھوڑ کرجھیل کے ایک کنارے پتھر پر جا کر بیٹھ گیا اور اپنے تخیلات میں جھیل سے باتیں کرنے لگا کہ کچھ اس کی سنوں اور کچھ اپنی سناؤں تخیلات میں جھیل مجھ سے کہنے لگی۔
"عدیل دیکھو مجھے اللہ نے کیسی خوبصورتی سے بنایاہے مجھے تمھارے سمیت دیگر لوگ دور دور سے دیکھنے کے لئےآتے ہیں،دیکھو مجھے اللہ نے کیا خوبصورت بنایا ہے،میں بتانا چاہتی ہوں کے صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسان جو اشرف الخلوقات ہے وہ بھی میرےپاس آتے ہیں میں صرف تھوڑے عرصہ کے لئےجلوہ گر ہوتی ہوں پھر برف کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہوں۔"

No comments:

Post a Comment

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...