Friday 12 June 2020

پہلا سفر وادی نیلم کی طرف (چھٹی قسط)

 نیلم گاؤں

میں اپنے پچھلے بلاگ میں آٹھمقام سے کیرن تک کے سفر کا ذکر کر  آیا ہوں اور کیرن سیکڑ سے جوڑا تذکرہ بھی، اس بلاگ میں مَیں صرف نیلم گاؤں کا ذکر کروں گا۔

نیلم گاؤں
 
 
نیلم گاؤں کا ایک منظر
نیلم گاؤں وہی گاؤں ہے جس کا ذکر آپ اس بلاگ"پہلا سفر وادی نیلم کی  طرف"میں کئی بار سن چکے ہیں اور اس کے دیکھنے کی اتنی جستجو تھی کہ میرے کانوں میں آٹھمقام سے کیرن تک کے سفر میں مقامی ڈرائیور کی آواز سنائی دیتی تھی کے جو کہتا تھا کہ "جس نے نیلم گاؤں نہیں دیکھا اس نے وادی نیلم نہیں دیکھی"اور اس جگہ پہنچنے کے بعد میں بھی یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ گاؤں اس وادی کا سب سے خوبصورت گاؤں ہے سرسبز میدان بلند و بالا پہاڑوں کا نظارہ اس پہاڑوں پر سینکڑوں گیسٹ ہاوسز اور ہٹس یہ اس بات کی عکاسی کرتے دیکھائی دے رہے تھے کہ یہ گاؤں سیاحوں کا مرکز ہے۔
  ایک حسین رات کا تذکرہ۔
نیلم گاؤں میں ہم نے کیپمنگ کی باوجود اس کے کے وہاں کافی ہوٹلز موجود تھے لیکن جو لطف کیمنگ کا تھا وہ کسی اور میں نہیں۔
اپنا کیمپ لگاتے ہوئے
کیمپ کے باہر کا منظر
نیلم گاؤں میں رات کا ایک منظر جس کو بیان کرنے کے بغیر میں نہیں رہ سکتا،نیلم گاؤں میں جب ہم کیمپ لگا رہےتھے مقامی لوگوں کے بچے ہمیں کیمپ لگاتے دیکھ کر پاس آئے اور پوچھنےلگے کے آپ کہاں سے آئے ہیں?
 ہمارے بتانے پر کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور اس وادی میں ہمارا دوسرادن ہے وہ کہنے لگے ہمارا بہت دل کرتا ہےکہ پنجاب دیکھیں اور لاہور کو دیکھیں لیکن ہمارے پاس جانے کےوسائل نہیں ہیں مجھے دیکھ کر یہ احساس ہوا کے وہ بہت غریب ہیں،اس کے بعد ہم نے رات کے کھانے کےلئے سوچا کہ کیا جائے تو ہمیں کسی نے بتایا کے یہاں جو سیاح آتے زیادہ ترلوگ باربی کیو کرتے ہیں اس پر ہم نے بھی باربی کیو کرنے کی ٹھانی لیکن باربی کیو کرنے کےلئے ہمارے پاس نہ تو کوئی چکن تھا نہ اتنا وقت تیار کر سکیں ہماری اس خواہش کو دیکھ کر پاس ہی مقامی گیسٹ ہاؤس کے مالک نے ہمیں باربی کیو کرنے کےلئے سامان اور ماحول فراہم کیا جس کو ہم نے خوب انجوائے کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی خیال آیا کہ یہ لوگ باہر سے جتنے غریب ہیں اندر سے اتنے ہی امیر کیونکہ ہمارے پیسے دینے کےباوجود اس کا جواب یہی تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم لوگ آپ کےلئے حاضر ہیں۔  اس کے بعد  جب ہم اپنے کیمپ میں واپس آئے تو مقامی گھروں میں کشمیری میوزک کی دھنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں،اور کیمپ کے باہر کا منظر ایسا تھا کے ایک طرف چاند اپنے جوبن پر تھاوہیں ستارے دئیے جلائے ہوئے تھے جیسے ہمارا استقبال کررہے ہوں اور درختوں کی پتوں کی سرسراہٹ ہوا سے  ایسی تھی جیسے وہ پکار رہے ہوں کے تم کتنے خوش قسمت ہو جو تمھیں اس جنت کے ٹکڑ ا دیکھنے کی جراءت ہوئی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...