Thursday 18 June 2020

رتی جھیل(قسط نمبر-9)


رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل
 گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گاؤں تک پہنچے تھے۔
اگلی صبح کا نظارہ کیمپ کے باہر کا دلکش تھا ۔صرف ہوا کی سرسراہٹ اور پرندوں کی حمد کرتی آوازیں کانوں میں سنائی دیتی تھی،پاس بہتی ندی سے اپنا منہ ہاتھ دھویا جس کا پانی برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔
صبح کے 8 بج چکے تھے۔ہمارا گائیڈ "یاسر "بھی کیمپ میں پہنچ گیا تھا ،میرے ساتھ کے دو دوستوں کی ہمت جواب دے چکی تھی اس لئے ہم ان کو وہاں کیمپ میں چھوڑ کر "رتی جھیل" کی طرف نکل پڑے۔
سفر کا جیسے آغاز ہوا سرسبز میدان سفید میدانوں میں تبدیل ہوگئے اور ہر پہاڑ برف کی چادر اوڑے ہوا تھا۔جس پر ہائیک کرنا مشکل تھا کیونکہ ہر قدم پر پاؤں پھسلنے لگنے تھے۔
راستہ انتہائی دشوار تھا،کیونکہ برف ابھی تک پہاڑوں پر جمی ہوئی تھی۔
ہمیں سفر کرتےہوئے 2گھنٹے ہوئےتھے لیکن جھیل تک کا فاصلہ 5کلومیڑ کا باقی تھا ۔گائیڈ ہمیں ایک پہاڑ کی اوپر سے لے کر جارہا تھا اور بلندی پر جاکر ساتھ بہتی ندی اب نظر سےاوجھل ہوگئی تھی۔
"یاسر"ہمارا گائیڈ کافی آگے چلی جارہا تھا اور ہم اس کو آواز لگاتے کہ یاسر بھائی اور کتنی دورہے "رتی جھیل" تو وہ ہماری ہمت بڑھانے کے لئے بس یہ کہتا کہ اس پہاڑ کے پیچھے جھیل ہے یہ سن کر ہم جلدی جلدی اپنے قدم بڑھاتے لیکن ایک پہاڑ کے بعد دوسرا پہاڑ دوسرے پہاڑ سے بلند ہوتے جاتا ۔
ہم چلتے جا رہے تھے برف کے پہاڑ اور گلیشئر سے راستہ انتہائی دشوار ہوتا جا رہا تھا۔دوران سفر ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ہمیں ایک ایسا گلیشئیر پار کرنا تھا جس کے نیچے ندی تھی یہ منظر دیکھ کر میں نے "یاسر بھائی" سے کہا کے اس کو پار کرنا میرے لئے نہ ممکن ہے کیونکہ ندی کا بہاؤ بہت تیز ہے اور مجھے خوف ہے کہ یہ گلیشئر ٹوٹ نہ جائے،یاسر بھائی نے تسلی دی کے ایسی کوئی بات نہیں مَیں آپ کو پار کرواتاہوں میرے پیچھے پیچھے آجائیں،ہم اپنے گائیڈ سے قدم بہ قدم ملا کر چلنے لگے۔
آخر کار  چلتےچلتے"یاسر" ہمیں ایک پہاڑ پر لےگیا جس کی اونچائی کافی بلند تھی اس پہاڑ سے دوردورکے  "رتی گلی کاٹریک اور"وادی نیلم "کے بلند وبالا پہاڑ دیکھائی دے رہے تھے، یہاں سے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ پوری زمیں خالی ہے اور آپ اس جہاں میں ایک ایسے پر سکون ماحول میں ہیں جہاں قدرت کے نظارے دیکھ کر اس خالق کی تخلیق پر دل گواہی دئیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کائنات کو بنانے والا خالق کس قدر خوبصورت ہوگا۔
  
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔
آخر کار 7گھنٹوں کے بعد ہم اس پہاڑ پر پہنچے جہاں سے جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں گرتا ہوا دکھائی دینے لگا ہم اس گرتے پانی  کو دیکھتے دیکھتے میدان کی طرف آئے  اس میدان سے اوپر ایک پیالہ نما پہاڑ تھاجس کے تین طرف پہاڑ تھےاور ایک طرف جھیل کا پانی آبشار کی صورت میں  ندی(جو ک ٹریک کے ساتھ ساتھ چلتی ہے)میں جاتا ہے اور وہی پانی"دریائے نیلم" میں جاگرتاہےدوسرے الفاظ میں
"دریائے نیلم" کی خوبصورتی میں"رتی جھیل" سے آنے والے پانی کا بھی ہاتھ ہے۔
اس کا منظر بھی بہت خوبصورت تھا "یاسر" کا کہنا تھا کہ یہ میدان میں جو ندی کی صورت میں پانی جمع ہورہا ہے یہ جھیل نہیں اصل جھیل بہت خوبصورت ہے جو کہ اس آبشار کے پہاڑ کے اُوپر ہے یہ سن کر ہم میں سے ایک دوست نے کہا کہ جھیل دیکھ تو لی ہے اور ہمت نہیں جانے کی لیکن میرے کانوں میں یاسر کی آواز کونجنے لگی کہ "اصل جھیل خوبصورت وہ ہے" یہ سن کر میں نے اپنی سٹک اٹھائی اور میرے ساتھ دو دوست سمیع اور اختشام چلنے لگے پہاڑ کا راستہ بارش کی وجہ سے پھسلنے والا تھا سنبھل سنبھل کر ہم 45منٹ بعد ہم جھیل کے کنارے پہنچ گئے،جھیل کو پہلی نظر دیکھ کرمیرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کے وادی نیلم آنے کی غرض پوری ہوگئی ۔جھیل انتہائی خوبصورت تھی۔
جھیل کا استقبال کرنے کےلئے پھولوں سے بچھی ہوئی چادر آپ کا استقال کررہی ہوتی اور یہ منظر پیش کر رہی ہوتی ہے کہ آپ اس جھیل کی گود میں جارہے ہیں۔
جھیل کے اطراف میں بلندوبالا پہاڑ جن پر برف کی چادر لپٹی ہوئی ہے،دیکھنے والوں کو اس خالق حقیقی کی تخلیق کی طرف توجہ پھیرتی ہے کہ بنانے والا ایسا خالق ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ہےبادلوں کے سائے تلے یہ جھیل ایسا منظر پیش  کرتی ہے جیسے آپ کسی حسن کی دیوی کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ کے سامنے وہ سفید چادر لئے آپ سے باتیں کررہی ہے۔


یہاں پر چلتے ہوئے یہ خیال بار بار ذہن میں آتا ہے کہ مالک نے چند منظر صرف آواراہ گردوں کے لئے تخلیق کئے ہیں۔کچھ ہوائیں ان کے جسموں کو چھونے کے لئے بنائی ہیں  جن کے دماغ میں آوارگی کا فتور ہے روزانہ ایک ہی بستر سے اٹھنے والے نہیں جانتے کہ ایک اجنبی وادی میں شب گزارنے کے بعد جب آوارہ گرد اپنے خیمے سے باہر آتاہے  تو اس کے سامنے ایک ایسا منظر ہوتا ہے  جو وہ زندگی میں پہلی بار دیکھتا ہے اور یہ وہی منطر ہوتا ہے جو مالک نے صرف اس کےلئے صرف ایک لمحے کے لئے تخلیق کیا ہوتا ہے۔
"رتی جھیل" پہنچ کر میرے دوست فوٹو گرافی کرنے لگے میں انہیں چھوڑ کرجھیل کے ایک کنارے پتھر پر جا کر بیٹھ گیا اور اپنے تخیلات میں جھیل سے باتیں کرنے لگا کہ کچھ اس کی سنوں اور کچھ اپنی سناؤں تخیلات میں جھیل مجھ سے کہنے لگی۔
"عدیل دیکھو مجھے اللہ نے کیسی خوبصورتی سے بنایاہے مجھے تمھارے سمیت دیگر لوگ دور دور سے دیکھنے کے لئےآتے ہیں،دیکھو مجھے اللہ نے کیا خوبصورت بنایا ہے،میں بتانا چاہتی ہوں کے صرف انسان ہی نہیں بلکہ انسان جو اشرف الخلوقات ہے وہ بھی میرےپاس آتے ہیں میں صرف تھوڑے عرصہ کے لئےجلوہ گر ہوتی ہوں پھر برف کی چادر اوڑھ کر سو جاتی ہوں۔"

Tuesday 16 June 2020

پہلا سفر کا آغاز وادی نیلم کی طرف (قسط نمبر-8)

رتی جھیل/برکاتیہ جھیل

رتی جھیل یا برکاتیہ جھیل ایک ہی نام ہیں،اس تک پہنچنے کے لئے ہم  صبح "کیرن" سے "دورایاں" آکر ناشتہ کیا جس کے بعد 10بجے ہم نے  اپنا سفر"دواریاں" سے "رتی جھیل" تک پیدل ہائیک کرتے سفر شروع کیا۔

 ہائیکنگ 

"دواریاں" سے ہم نے "رتی جھیل" کے لئے پیدل سفر شروع کیا کیونکہ اس وقت تک نہ تو سٹرک تعمیر ہوئی تھی اور نہ کوئی جیپ جاتی تھی ۔یہ 18 کلومیٹر کا فاصلہ تھا پر انتہائی دشورار راستہ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ یہ پہلی ہائیکنگ تھی لیکن میری بات سے وہ لوگ اتفاق کریں گے جنہوں نے 2010ءسے پہلے دواریاں سے "رتی جھیل" تک اپنا سامان اٹھا کر پیدل سفر کیا ہو۔
جب ہم نے پیدل سفر کیا تو مقامی لوگ کہتے تھے کہ آپ 4 گھنٹوں میں "رتی جھیل" تک پہنچ جائیں گے یہ سننے کے بعد میں نے کہا یہ کونسی ہائیکنگ ہوئی جس میں صرف 4 گھنٹے ہائیکنگ ہے میں نے تو ایسے ٹریک کے بارے میں سنا ہوا کے جہاں آپ کو اپنی منزل تک پہنچنے تک دو،دو دن بھی لگ جاتےہیں میرا یہ خیال سراسر غلط تھا کہ یہ ہائیکنگ صرف 4 گھنٹے کی ہے۔

جھیل کی طرف جب ہم نےسفر شروع کرنے لگے تو مقامی لوگوں نے کہا  کہ آپ یہاں سے گائیڈ لے جائیں کیونکہ راستہ دشوار کےساتھ ساتھ جھیل تلاش کرنے میں مدد دےگا جس پر ہم نے عرفان نامی گائیڈ کو ساتھ لیا جو وادی نیلم میں سیاحتی مقامات اور جھیلوں کا انسائیکلو پیڈیا تھا۔"دوارایاں" سے بائیں جانب کچی سٹرک"رتی جھیل" کو جارہی تھی،اس سٹرک کے ساتھ ساتھ ایک تیز بھاؤ والی ندی بھی موجود تھی جس کا پانی بڑی بڑی چٹانوں کو ٹکرانے کے بعد اور "دواریاں" کے پل کوکراس کرنے کے بعد "دریائے نیلم" میں جا ملتا ہے۔

اس پانی کی تیز رفتاری دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ شاید "رتی جھیل" ہی اس پانی کو قاصد بنا کر بیجھتی ہے اور پیغام دیتی ہےکہ دریائے نیلم کو جاکر جلدی سے پیغام دو کہ جہاں جہاں سے وہ گزرے میرے دیوانوں کو میری زیارت کیلئے بھیج دیں۔
ہم دوست بھی اس کی زیارت کرنے کےلئے پیدل "دواریاں" سے "رتی جھیل" کے لئے نکل چکے تھے۔کائل،فر،بن گھوڑ،جنگلی ڈھوڈا(جوکہ قریب قریب لوگاٹ کی طرح ہوتا)،جنگلی اخروٹ،دیودار اور برج کے درختوں سے اس سفر کا شروع ہوا،سڑک صرف ایک کلو میڑ تک نسبتاََ صحیح لیکن آگے سے ایڈوانچر بھرا رستہ تھا۔
رتی گلی ٹریک پر درختوں کا منظر
ایک طرف ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ندی کا شور مچاتا پانی اور دوسری طرف ان تمام مندرجہ بالا درخت  کی بھینی بھینی خوشبوئیں روح کی تازگی اور مسرت کا سامان فراہم کئے ہوئے تھیں۔
جب ہم نے سفر شروع کیا تو تقریبا ایک کلو میٹر تک راستہ چڑھائی کی طرح کا تھا جس پر چڑھنا بہت مشکل تھا ایسی حالت میں جبکہ آپ کے پاس20کلو وزنی بیگ ہو (جس میں آپ کا کیمپ،میٹرس،کھانے پینے کا سامان اور کپڑے ہوں)،لیکن ہمت کر کے چڑھےیہ سوچ کر کہ جھیل تک کاسفر تو صرف 4گھنٹےہے لیکن تین گھنٹے کا سفر کرنے کے بعد بھی مقامی لوگوں سے پتا چلاکہ ابھی تین گھنٹے کا سفر ہے ۔ہر قدم پر جیسے آپ کو تھکن محسوس ہوتی اور دل میں یہ خیال آتا کہ واپس چلتے ہیں تو پکھڈندی کے اطراف بلند وبالا پہاڑ ندیوں کی صورت میں گلیلشیئر سے آئینہ کی طرح صاف پانی نکلتاہوا،ارادوں کو مضبوط کر دیتا کے کوئی بات نہیں یہ قدرت کےمناظر صدا دے رہے ہیں کے یہ جھیل تمھیں اپنی طرف بلا رہی ہے اور تم واپس جانے کا ارادہ کررہے ہو۔ اس سفر میں ہمارے ارادوں کو مضبوط کرنےمیں سب سے زیادہ ہاتھ جھیل کےطرف جاتے ہوئے آبشاروں،برفیلے پہاڑ اور گلیشئر کا بہت ہاتھ تھا کیونکہ وہ احساس دلاتےہیں کہ جس جھیل کا راستہ اتنا حسین ہےاس کی جھیل کیسی ہوگی۔ہر منظر ہماری تھکن کو دور کردیتا تھا۔
"دورایاں"سے نکلتے وقت سورج چمک رہا تھا اور کہیں کہیں بادل تھے لیکن 3گھنٹے ہائیک کرنےکےبعد بادل گہرے ہوتے جاتے تھے،سورج اور بادلوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری تھا،یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد آپ تخیلات کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کائنات کے بنانے والے کی حمدوثناء کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
میں پہاڑوں پر لگے اونچے برج اور دیودار کے درخت دیکھ رہا تھا ،پھر نگاہ بائیں جانب پھیرتے ہوئے نیچے ندی کا بہتا پانی اور اس ندی کےکنارے پھولوں کی بیچھی ہوئی چادر،ہمیں ہائیک کرتے ہوئے 5گھنٹے ہوگئے تھے اور ہم نے بمشکل 10کلومیٹر کافاصلہ طہ کیا تھا۔
ہمارے گائیڈکا گھر بھی اسی ٹریک پر تھا ہمیں ایک چٹان پر آرام کی غرض سے بیٹھا کر کہنے لگا کہ میں اپنے گھر سے ہو کر آتا ہوں، قریب 20 منٹ کے بعد وہ ہمارے لئے "کشمیری لسی" لے آیا جس کو دیتے ہوئے اس نے بتایا کہ یہ بکری کے دودھ سے بنائی جاتی ہے،جس کو پی کر انسان چست ہوجاتا ہے اس کو ہماری زبان  میں "انرجی ڈرنک" کہتے ہیں اس کو پی کر ہم نے دوبارہ چلنا شروع کیا ۔
شام4بجے کا وقت ہوگیا تھا "رتی جھیل" سے 8کلو میٹر پہلے ایک گاؤں "دودمیال" آتا ہے جہاں ہم نے رات کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا ،پاس کے گھروں سے کشمیری بچے ہمارے پاس دوڑ کر آئے اور ہمارا سامان ہم سے پکڑ کر کہنے لگے کہ آپ ہمارے پاس سیزن کے سب سے پہلے مہمان ہیں ہم آپ کو خوش آمد کہتےہیں۔
کشمیری بچے ہمارا سامان اٹھائے ہوئے
 شام کافی ہوگئی تھی اور"رتی جھیل" تک کا فاصلہ 8کلو میٹر کا طہ کرنا اور پڑا تھا،چنانچہ ہم نے رات "دودمیال" گاؤں میں روکنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم نے اپنا کیمپ گاؤں سے تھوٹے سے فاصلے پر سرسبز پہاڑں کے درمیان ہم نے لگایا ۔جہاں ساتھ بہتی ندی کا شور صاف سنائی دیتاتھا ۔

کیمپ کے باہر کا منظر "دودمیال" گاؤں کے بچوں کے ساتھ


Sunday 14 June 2020

sarfaraz will never betray you

sarfaraz will never betray you



I just opened my twitter account as usual after lunch and the top trend is running #sushantsinghrajuput




I dont know him by name  but suddenly i recognized when i saw his picture.He was one of the prominent actor from indian movies.

And  suddenly the  sound began in  my ears " sarfaraz kabhi dhuka nai dega ( sarfaraz will never betray you)''.
It was a dialogue of famous movie "pk" in which he played  a role of Pakistani boy.
But when i listened news on twitter top trend "sushant singh rajput commits sucide at Mumbai home."
And Mumbai police admitted "Bollywood actor sushant rajput was hanging at his Mambai home and he passed away."
Sushant Ringh Rajput  gave us a lesson  in the film "M.S.Dhoni" that never give up and in his latest movie ,The man who  Has given A massage not to commit sucide in "Chichore" movie has committed Sucide. you will be missed' can't belive  he is no more with us.


The Patna-born Rajput became an instant hit with his good looks and boyish charm when he was noticed in the famous soap on Zee TV's 'Pavitra Rishta' in 2009. He made his Bollywood
debut in the buddy drama 'Kai Po Che!' in 2013, for which he also received a Filmfare nomination for Best Male Debut. The same year, he was also seen in the romantic comedy 'Shuddh Desi Romance' 2013, which was followed by the titular detective in the action thriller 'Detective Byomkesh Bakshy!' in 2015
Sushant Singh 
movies
1.kai Po Che
2.shuddh desi romance
3.pk
4.detective byomkesh bakhsy (2015)
5. M.S.Dhoni:the untold story (2016)
6. Raabta (2017)
7. Welcome to New York.(2018)
8.kedarnath (2018)
9.Chichhore (2019)
10. Dil bechara (2020)



Saturday 13 June 2020

ایکٹیمرا انجیکشن کی اصل حقیقت

 ایکٹیمرا انجیکشن(Actemra)


پچھلے دنوں ایک نیوز نشر ہوئی کے پاکستان میں’’ ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ جو کورونا کے مریضان کےعلاج کے لئے استعمال ہوتا ہے،جس کی پہلی قیمت20.000روپےتھی،اب 3لاکھ روپےہے اور بلیک میں سیل ہورہا ہے۔
سب سے پہلےتو یہ کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کورونا کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس ملک کی طرف سے طرح طرح کی ویکسین کو کورونا کے مریضان کےلئے مفید قرار دیا جاتا ہے۔
مثلاََ ہمارے پاکستان میں جب کرونا کا ایک بھی مریض نہیں تھا تو بعض سوشل میڈیا پر یہ خبر  گردش کرنے لگی کہ "پیاز" کورونا کے مریض کے لئے مفید ہے،پھر جب پاکستان میں کورونا کا وار شروع ہوا تو بعض پیر حضرات بھی شامل سامنے آئے جنہوں نے اس کے لئے اس کے لئے شرطیہ علاج دیافت کرنے کا دعویٰ کیا اور اپنا کاروبار خوب چمکایا۔
اس کے بعد ’’کلونجی،ادرک‘‘ کے پانی کی بات شروع ہوئی کے یہ کورونا کے مریض کو پلائے جانے سے کورونا کا مریض صحت یاب ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد ملیریا  کے مریضوں کے علاج کے لئے ’’کلورین ویکسین‘‘کو ہی ’’کوڈ19 ویکسین‘‘ کا نام دے دیا گیا ،بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ’’سنامکی‘‘ جڑی بوٹی کو ہی کرونا کے مریضوں کا واحد حل قرار دے دیا  گیا  اس بات کا پچھلے دنوں مجھے بھی  مشاہدہ ہوا کے میں دواخانہ سے پٹھکری لینے گیا تو وہاں پر"سنا مکی" لینے والوں کا رش لگاہوا تھا۔خیرڈاکٹرزنے اس کا استعمال کرنا انسانی صحت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اس پر تبصرہ کرتےہوئے ماہرغذائیت نیلم اعجاز کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ٹوٹکا شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’سنامکی‘‘ سے کروناکا علاج ہے ۔ان کاکہناتھا کہ ’’سنامکی قہوے کی تاثیر گرم ہےاس لئے جب اسےاستعمال کیا جاتاہے تواس سے مریض کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے جس سےاس کے جسم میں اس کی نمکیات میں کمی واقع ہوجاتی ہے،جوکورونامریض کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنامکی بلڈ پریشر،گردے اور جگر کےمریضوں کےلئے سنامکی کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہوسکتاہے۔‘‘

سنامکی کی شکل

اور اب ایک اور علاج ہماری سائنسدان عوام نے دریافت کیااور وہ ایکٹیمرا انجیکشن ہے۔یہ وہ انجیکشن ہے جس کانام آج کل ہر شخص کی زبان پر ہے اوراس کی مقبولیت کا عالم یہ بھی  ہے کہ ہر کوئی اس کو اس کی اصل قیمت سے زائد پیسے دینے کے لئے تیار ہیں۔
ایکٹمرا انجیکشن مارکیٹ میں نایاب ہونے کی وجہ
    ایکٹیمرا انجیکشن 
"بی بی سی اردو" کی ویب سائیٹ پر ایک مضمون ایکٹمرا کے متعلق شائع ہوا جس میں انہوں نے ڈاکڑ سلمان ایاز  جن کا تعلق میوہسپتال لاہور سےہے ان کا انٹرویو شائع کیا جن میں ان کاکہنا تھا کہ یہ انجیکشن کورونا کے مریضوں میں اعضاء کی سوزش کوروکنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے،تاکہ ان کے اعضاء کو نقصان نہ پہنچے۔انہوں نےمزید بتایا کہ وائرس مریض کے جسم پر حملہ کرتے ہوئے ان کے بیشتر اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہےجس سے سپسیز ہو جاتا ہے اوربعض اوقات جان لیواہوتا ہے۔اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پہلے اس انجیکشن کی قیمت 50ہزار روپے تھی لیکن اب یہ انجیکشن بلیک میں 3لاکھ روپے تک فروخت کیا جارہاہے۔ان کامزید کہنا تھا کہ یہ انجیکشن صرف شدید مریضوں پر استعمال کیا جاتاہے۔اور 3دن مسلسل مریض کو لگایا جاتاہے۔
 وزارت صحت کا اعلان
ڈاکڑ یاسمین کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہزار مریضوں پر اس کا ٹرائل شروع کررہے ہیں جس کے لئے ہم میو ہسپتال کے ڈاکڑوں کواس کا سٹاک مہیا کریں گے۔

اصل ایکٹیمرا انجیکشن کی پہچان
ڈیلی پاکستان نیوز کے ایک اینکر ابتسام چوہدری صاحب نے جنرل ہسپتال کےایک ڈاکڑ عرفان صاحب کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ مارکیٹ میں اس وقت کئی نقلی ایکٹیمرا انجیکشن آئے ہیں اصل انجیکشن کی پہچان کیا ہے جس میں ڈاکٹر عرفان صاحب نے بتایا کہ ’’پوری دنیا میں (Roche)کپنی سپلائی کرتی ہے۔اور اس کی ویکسین پر(Roche) کپمنی کالوگو لگا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی سے بھی انجیکشن منگوائے جارہے ہیں لیکن وہ ایکٹیمرا انجیکشن نہیں ہے۔‘‘
         (Roche)کپمنی کا لوگو

https://www.facebook.com/DailyPakistan.OfficialPage/videos/936218043507470/


اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ کورونا کی ویکسین نہیں ہے، صرف علاج میں مدد دینے کے لئےاستعمال ہوتا ہے جو مریض  تاکہ مریضوں کےاعضاء کو سوزش نہ ہو۔ اس انجیکشن کو کورونا مریضان کا واحد حل قرار دینے کی وجہ سے جس شخص کو ضرورت ہوتی وہ بھی اس سے محروم رہ جاتاہے اور اصل حق دارکےہاتھ سےدورہے۔
ڈاکڑز نے پھر آگاہ کیا کہ حالات ایسے نہیں کے عوام ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے پھریں اصل چیز احتیاط اور احتیاط سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتاہے براہ کرم عوام ماسک کا استعمال کریں اور گھروں سے بلاوجہ نہ نکلیں ۔

Way to dwarian.(neeelum valley)

پہلے سفر کا آغاز وادی نیلم کی طرف(قسط نمبر-7)

نیلم گاؤں سےدواریاں کے لئے سفر

اپنے پچھلے بلاگ میں وادی نیلم کے سب سےخوبصورت گاؤں" نیلم گاؤں" کا ذکر کیا تھا،اس بلاگ میں "دواریاں" کا ذکر کروں گا اور جب "دواریاں" کا ذکر ہو تو ایک ہائیکر کا ذہن سب سے پہلے"رتی گلی" کی طرف جاتا ہے ،لیکن قبل اس کےکہ مَیں"رتی گلی" کا ذکر کروں "نیلم گاؤں"سے "دواریاں" گاؤں تک کا سفر بیان کروں گا۔
نیلم گاؤں سے دواریاں
نیلم گاؤں میں ایک حسین رات گزارنے کے بعد صبح کا نظارہ بھی انتہائی دلکش تھا مَیں سمجھ رہا تھا کے پورےگاؤں میں سب سےپہلے میں بیدار ہوا ہوں لیکن ایسا ہرگز نہیں تھا ،مَیں جیسے ہی کیمپ سے باہر نکلا تو چھوٹے بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو اپنے اپنے روزمرہ کی مصروفیات میں مصروف دیکھا ایک طرف بچوں کو سکول کی وردی پہنے سکول جاتےتو دوسری طرف بزرگوں کو مجلس لگائے دیکھا اور عورتوں کو مردوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے دیکھا ۔
اس نظارے کو دیکھنے کےبعد پہاڑوں کےییچ میں سے سورج کی کرنین چیرتی ہوئی ہمارےکیمپ میں پہنچ رہی تھیں جو یہ صدا دے رہیں تھی کہ اَب یہاں سے کوچ کرنے کا وقت آچکا ہے ابھی تمھیں اس وادی کے حسین نظاروں کے منظر سے پردہ اٹھانا ہے۔
ہم نے جلدی جلدی اپنا کیمپ سمیٹا اور اپنے اگلے سفر (دواریاں)کے لئے تیاری کی۔
نیلم گاؤں سے دواریاں کے لئے سفر

"دواریاں" 
دو
دواریاں مظفر آباد سے 106کلومیڑ دوری پر واقع ہےجبکہ آٹھمقام سے اس کا فاصلہ22کلو میڑ ہے۔"دواریاں" گاؤں سطح سمندر سے 6000فٹ بلندی پر واقع ہے۔ "دواریاں" گاؤں کو" رتی گلی" کا پہلا بیس کیمپ بھی کہا جاتاہے۔

رتی گلی ٹریک 

نیلم گاؤں سےدواریاں کے لئے سفر

دواریاں سے بائیں جانب ایک روڑ آپ کو جاتی ہوئی دیکھائی دے گی جس پر لکھا ہوگا کہ" رتی گلی 18 کلومیڑ فاصلہ پر" لیکن اگر آپ اس سائن بورڈ کی زبانی پیدل سفر کرنے کا سوچ رہیں تو اس کی بات  کا یقین نہ کریں کیونکہ یہ ٹریک 18 گھنٹے کا ثابت ہوسکتاہے کیونکہ "رتی گلی" کا راستہ انتہائی دشوار ہے۔اوراگر آپ جیپ پر سفر کررہے ہیں تو یقیناََ یہ ایسا راستہ ہے جس کاہر پہاڑ،ہر آبشاراورہر گلیشئر اور اس کی ندیاں آپ کے سفر کو حسین بنا دیں گی اور آپ کا سفر ایسے پورا ہوگا جیسے آپ خواب دیکھ رہے ہوں۔

Friday 12 June 2020

پہلا سفر وادی نیلم کی طرف (پانچویں قسط)

کیرن

میں اپنے پچھلے بلاگ میں وادی نیلم کے صدر مقام آٹھمقام تک پہنچنے کا ذکر کر آیا ہوں،جہاں ہم نے وادی نیلم کے کنارے ہوٹل میں رات گزاری اور پھر اپنے اگلے دن "کشمیر ی باقرخانی" اور چائے کے ساتھ ہم نے اپنے اگلے دن کا آغاز کیا ،ہماری اگلی منزل کیرن تھی۔
کیرن
کیرن کا نقشہ
کیرن کا منظر
کیرن مظفر آباد سے93کلو میڑکے فاصلے پرہےجبکہ آٹھمقام سے اس کا فاصلہ 9کلو میٹر ہے،یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اس جگہ کو "کیرن سیکٹر" بھی کہتے ہیں، جہاں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ کیرن اور آزاد کشمیر کا علاقہ کیرن کا فاصلہ 100فٹ رہ جاتا ہے اور دونوں کےدرمیان وادی نیلم کا "دریائے نیلم" لائین آف کنڑول کا کام دیتاہے۔
کیرن سطح سمندر سے 5000فٹ بلند ہے،کیرن کی تاریخ میں ذکر آتاہےکہ 10ویں صدی میں "راجہ بہادر "نے اس شہر کو آباد کیا۔
کیرن کو دیکھنے کےبعد ہم نے یہاں سے 2.5کلومیٹر دور گاؤں جس کو نیلم گاؤں کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے "نیلم گاؤن نہیں دیکھا اس نے وادی نیلم نہیں دیکھی "وہاں جانے کا فیصلہ کیا ،نیلم  گاؤں جانے کےلئے ہم نے جیپ کا سہارا لیا اور آدھے گھنٹے کے بعد ہم سہ پہر 12بجے نیلم گاؤں پہنچ گئے۔نیلم گاؤں کی خوبصورتی واقعی میں اس کےدیکھنے والوں کو کو سحر میں مبتلا کردیتی ہے،اس گاؤں کا ذکر میں اپنے اگلے بلاگ میں کروں گا۔

 

پہلا سفر وادی نیلم کی طرف (چھٹی قسط)

 نیلم گاؤں

میں اپنے پچھلے بلاگ میں آٹھمقام سے کیرن تک کے سفر کا ذکر کر  آیا ہوں اور کیرن سیکڑ سے جوڑا تذکرہ بھی، اس بلاگ میں مَیں صرف نیلم گاؤں کا ذکر کروں گا۔

نیلم گاؤں
 
 
نیلم گاؤں کا ایک منظر
نیلم گاؤں وہی گاؤں ہے جس کا ذکر آپ اس بلاگ"پہلا سفر وادی نیلم کی  طرف"میں کئی بار سن چکے ہیں اور اس کے دیکھنے کی اتنی جستجو تھی کہ میرے کانوں میں آٹھمقام سے کیرن تک کے سفر میں مقامی ڈرائیور کی آواز سنائی دیتی تھی کے جو کہتا تھا کہ "جس نے نیلم گاؤں نہیں دیکھا اس نے وادی نیلم نہیں دیکھی"اور اس جگہ پہنچنے کے بعد میں بھی یہ کہ سکتا ہوں کہ یہ گاؤں اس وادی کا سب سے خوبصورت گاؤں ہے سرسبز میدان بلند و بالا پہاڑوں کا نظارہ اس پہاڑوں پر سینکڑوں گیسٹ ہاوسز اور ہٹس یہ اس بات کی عکاسی کرتے دیکھائی دے رہے تھے کہ یہ گاؤں سیاحوں کا مرکز ہے۔
  ایک حسین رات کا تذکرہ۔
نیلم گاؤں میں ہم نے کیپمنگ کی باوجود اس کے کے وہاں کافی ہوٹلز موجود تھے لیکن جو لطف کیمنگ کا تھا وہ کسی اور میں نہیں۔
اپنا کیمپ لگاتے ہوئے
کیمپ کے باہر کا منظر
نیلم گاؤں میں رات کا ایک منظر جس کو بیان کرنے کے بغیر میں نہیں رہ سکتا،نیلم گاؤں میں جب ہم کیمپ لگا رہےتھے مقامی لوگوں کے بچے ہمیں کیمپ لگاتے دیکھ کر پاس آئے اور پوچھنےلگے کے آپ کہاں سے آئے ہیں?
 ہمارے بتانے پر کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور اس وادی میں ہمارا دوسرادن ہے وہ کہنے لگے ہمارا بہت دل کرتا ہےکہ پنجاب دیکھیں اور لاہور کو دیکھیں لیکن ہمارے پاس جانے کےوسائل نہیں ہیں مجھے دیکھ کر یہ احساس ہوا کے وہ بہت غریب ہیں،اس کے بعد ہم نے رات کے کھانے کےلئے سوچا کہ کیا جائے تو ہمیں کسی نے بتایا کے یہاں جو سیاح آتے زیادہ ترلوگ باربی کیو کرتے ہیں اس پر ہم نے بھی باربی کیو کرنے کی ٹھانی لیکن باربی کیو کرنے کےلئے ہمارے پاس نہ تو کوئی چکن تھا نہ اتنا وقت تیار کر سکیں ہماری اس خواہش کو دیکھ کر پاس ہی مقامی گیسٹ ہاؤس کے مالک نے ہمیں باربی کیو کرنے کےلئے سامان اور ماحول فراہم کیا جس کو ہم نے خوب انجوائے کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا اور یہ بھی خیال آیا کہ یہ لوگ باہر سے جتنے غریب ہیں اندر سے اتنے ہی امیر کیونکہ ہمارے پیسے دینے کےباوجود اس کا جواب یہی تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور بھی کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم لوگ آپ کےلئے حاضر ہیں۔  اس کے بعد  جب ہم اپنے کیمپ میں واپس آئے تو مقامی گھروں میں کشمیری میوزک کی دھنیں کانوں میں سنائی دے رہی تھیں،اور کیمپ کے باہر کا منظر ایسا تھا کے ایک طرف چاند اپنے جوبن پر تھاوہیں ستارے دئیے جلائے ہوئے تھے جیسے ہمارا استقبال کررہے ہوں اور درختوں کی پتوں کی سرسراہٹ ہوا سے  ایسی تھی جیسے وہ پکار رہے ہوں کے تم کتنے خوش قسمت ہو جو تمھیں اس جنت کے ٹکڑ ا دیکھنے کی جراءت ہوئی ہے ۔

Thursday 11 June 2020

پہلاسفر وادی نیلم کی طرف(قسط نممبر۔3)

مظفر آباد سے آٹھمقام
میرے پچھلے بلاگ میں راوپلنڈی سے مظفر آباد تک حسین یادوں کا تذکرہ ہے اور مظفر آباد سے جڑے کچھ تاریخی پہلو بھی بیان کئےہیں۔ 
اس بلاگ میں مظفر آباد سے آٹھمقام تک کے سفر بیان کروں گا اور ان سے جڑی کچھ یادیں۔
مظفر آباد سے آٹھمقام
 
مظفر آباد میں دوپہر کا کھانا مشہور سو غات "کشمیری گشتابے"اور کشمیری چائے پینے کے بعد ہم نے بذریعہ ویگن مظفر آباد بس اسٹینڈ سے وادی نیلم کے صدر مقام آٹھمقام کی طرف سفر جاری شروع کیا ،مظفر آباد سے وادی نیلم کا سفر جیسے جیسے شروع ہوتا ہے آپکو ہر 5منٹ کے بعد قدرتی چشمے ملیں گے اور ان چشموں سے نکلتے ٹھنڈے پانی میں رکھے فروٹس اور مشروبات آپ کو سٹال کی  صورت ملیں گے۔مظفر آباد سے آٹھمقام تک آپ کو سٹرک صحیح ملے گی اور ہر طرح کی گاڑی پر سفر کیا جاسکتاہے۔
وادی نیلم میں داخل ہوتے ہی مظفر آباد سے دریائے نیلم  کی ہم رقابی ساتھ رہتی ہے ،ایک طرف دریا کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا شور،دوسری طرف بلند و بالا پہاڑ اور ان پہاڑوں پر آبشاروں سے گرتا ہوا پانی اور سرسبز جنگلات ایک خواب کی طرح تھے۔
نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ
آٹھمقام جاتےہوئے آپکو ایک ہائیڈرو پرجیکٹ بھی نظر آئے گا جس کا نام "نیلم-جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ" ہے 2012 ءمیں جب ہم آٹھمقام کیطرف سفر کررہے تھے تو یہ ہائیڈرو پراجیکٹ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا چینی اورپاکستانی انجبنئیر اس کو مکمل کرتے دکھائی دے رہےتھے۔
( جس کا ذکر میں اپنے ایک دوسرے بلاگ میں کر آیا ہوں۔)
یہ پراجیکٹ 2008 ء میں شروع ہوا اور 2018ء میں مکمل ہوا جب اس پراجیکٹ کے  مکمل ہونے کی خبر ملی تو ایک خوشی بھی ہوئی کیونکہ ہم نے اس کو بنتے دیکھا تھا۔
دوران سفر کئی مقامات پر ویگن کی کھڑکیوں کےشیشوں کے آگے پردہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ ایک مقامی شخص جو کیل کا رہائشی تھا اور وہ ہمارے ساتھ سفر کررہا تھا اس نے بتایا کے بھارتی فوجیوں کی طرف سے آئے دن پبلک ٹرانسپورٹ کو نشانہ بنایا جاتاہےاس لئے اس پردے کو کوشش کریں کے نہ ہٹائیں۔
یہ سن کر ایک دفعہ خوف بھی ہوا کہ شاید ابھی کوئی بارڈر کے اس پار سے شرارت ہو اور کوئی ہلچل ہو کیونکہ میں بھارتی فوجیوں کی چھاؤنیوں  کو بآسانی دیکھ سکتا تھا۔
تیتوال کراسنگ پوائنٹ
دریا کےاس پار تیتوال گاؤں کا علاقہ ہے
"تیتوال گاؤں" جو کہ مقبوضہ کشمیر کےعلاقے کی تحصیل" کپوڑہ" کا علاقہ ہے آٹھمقام کی طرف جاتے ہوئے ایک دائیں جانب ایک پُل نظر آئے گا جس کو "تیتوال کراسنگ پوائنٹ" کہتےہیں دریا کےاِس پار "آٹھمقام" آزادکشمیر کا علاقہ ہے اور دریا کے دوسری طرف "تیتوال گاؤں" مقبوضہ کشمیر کی تحصیل" کپوڑہ" کا علاقہ ہے تیتوال کے علاقے میں آپ بھارتی فوجیوں کچھ چھاؤنیاں اور کشمیری لوگوں کو کام کر تے دیکھ سکتے ہیں ،یہ دیکھ کر ان جذبات کا وہی اندازہ لگا سکتا ہےجو 70ء سال سے مل نہ سکتے ہوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتےہوں آوازیں سن سکتےہوں پر مل نہ سکتےہوں۔اور ان کے لئے دل سےدعا نکلتی ہے کہ خدا ان کی دورئیاں جلد ختم کریں اور وادی کے دونوں طرف کے کشمیری بھائی ایک دوسرے سے مل سکیں۔
4گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم آٹھمقام پہنچ گئے۔
آٹھمقام
آٹھمقام ضلع نیلم کا ہیڈ کواٹرہے اور یہ قصبہ جدید سہولیات سے آراستہ ہے۔اس قصبہ میں بےشمار ہوٹل سیاحوں کے لئے ہیں تاکہ سیاحوں کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو،ہم شام4 بجے آٹھمقام پہنچ گئے اور ساتھ ہی "شاہد موبائل شاپ" سے جاکر "ایس سی او" سم (جو کہ آرمی کے ذیلی ادارہ اسپیشل کمیونیکشن آرگنائزیشن کے تحت ہے)خریدی، کیونکہ یہاں سے آگے پوری وادی نیلم میں سوائے"ایس سی او "کے علاوہ کسی قسم کا موبائل نیٹ ورک یا انٹرنیٹ سروس نہیں ملتی اس لئے ہمیں ایس سی او کا سہارا لینا پڑتاہے۔

نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ

 نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ 


2012ء میں وادی نیلم کی سیر کے دوران مظفر آبادسے آٹھمقام جو کہ وادی نیلم کا صدر مقام ہے جاتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا ۔
نیلم-جہلم ہائیڈروپراجیکٹ 2008ء میں  اس کی تعمیر کا کام چینی کمپنی کو سونپا گیا۔ اس پراجیکٹ کا مقصد دریائے نیلم سے پانی کے رخ کو دریائے جہلم کی طرف موڑنا ہےاور ڈیم سے حاصل ہونے ولی بجلی سےملک کی بجلی کی کمی کو پورا کرنا نیز ڈیم کے پانی سے فصلوں کو پانی کی فراہمی کرنا شامل ہیں،یہ پاور پراجیکٹ مظفر آبادسے42 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے،یہ969 میگا وارڈ بجلی پیدا کر سکتا ہے ۔
اس پراجیکٹ کا 90٪ حصہ بلند و بالا پہاڑوں کے زیر زمین ہے۔یہ ڈیم 160 میڑ لمبا اور انچائی 60میٹر ہےنیز ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنےکی مجموعی صلاحیت 2078ایکڑ فٹ ہے۔یہ پراجیکٹ 2018ء میں مکمل ہوا اور یہ 30سال کےلئے13.50 روپے فی یونٹ کے سطح والے ٹیرف پر ہر سال5,150گیگا واٹ (گیگا واٹ گھنٹہ)پیدا کرےگا۔اس ہائیڈروپراجیکٹ کا افتتاح 14اگست 2018ء کو  کیا گیا ۔
میں نے جن اس جگہ کو پہلی بار 2012ء میں دیکھا تھا تب یہ اپنے تعمیراتی مراحل میں تھا سینکڑوں چینی اور پاکستان مزدور اس کو مکمل کرنے میں جڑے ہوئےتھے۔دوران تعمیر مظفر آباد سے وادی نیلم جاتےہوئے ٹرانسپورٹ کو آگے جانے کےلئے تعمیراتی کام کی وجہ سے 2،2گھنٹے انتظار بھی کرنا پڑتا تھا ہماری قسمت اچھی تھی کے ہم نے اس ٹائم پریڈ میں اس روڑ کو کراس کیا جب کام میں وقفہ تھا۔

Wednesday 10 June 2020

پہلے سفر کاآغاز وادی نیلم(دوسری قسط)

پہلا سفر وادی نیلم کی طرف(قسط نمبر 2)
میں اپنے پچھلےبلاگ میں وادی نیلم کی طرف سفر کا آغاز کر چکا ہوں اب اس بلاگ میں راولپنڈی سے مظفر آباد تک کے حالات بیان کروں گا۔
راولپنڈی سے مظفر آباد ۔ 
صبح پیر ودائی کے اڈے سے ناشتہ کرنے کے بعد لوکل ہائی ایس سے مظفر آباد کے لئے سفر شروع کیا ،میں جب بھی سفر کرتا تو میری کوشش ہوتی کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو سکوں،اس کی ایک وجہ یہ کے میں تصاویر سے زیادہ ویڈیوز کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ آپ ویڈیوز میں ان مناظر کوقید کر سکتےہیں جو تصاویر نہیں کرسکتی ہیں۔
اسلام آباد کی خوبصورتی
کشمیر ہائی وے پر سفر جاری تھا میں نے پہلی بار ان سٹرکوں پر سفر  کیا، اسلام آباد دنیا میں خوبصورتی کےلحاظ سےممالک کے دارالحکومتوں میں دوسرے نمبر پر ہے،جس کی خوبصورتی اس کے دیکھنے والوں کو دنگ کردیتی ہے اور دنیا کے صاف ترین شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے  اسلام آباد جاتےہوئے تاریخی عمارتیں جن میں سر فہرست مسجد فیصل ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اسی طرح سپریم کورٹ کا سڑکچر بھی قابل دید ہے۔

اس کے ساتھ اسلام آبادکے اطراف مارگلہ ہلزاور کشمیر ہائی وے کے اطراف سرسبز درخت یہ احساس دلا رہے تھے کہ یہاں کے رہنے والے کتنے خوش قسمت لوگ ہیں ایک طرف ترقی کےلحاظ سے ہر طرح کی آسائش یہاں میسر ہے اور دوسری طرف قدرت کا دیا ہواتحفہ شہر کے سرسبز درخت اور سڑک کے اطراف ہزاروں اقسام کےپھولوں کی مہک،یہ کسی  بھی نعمت سے کم نہیں ہے ۔
صبح سویرے کشمر ہائی وے پر سائیکلنگ کرتا ہوا نوجوان
مری(لٹل انگلینڈ)
 ملکہ کوہسار مری کو "لٹل انگلینڈ" کے نام سے بھی جانا جاتاہے کیونکہ اس قصبہ کی بنیا د انگریزوں نے رکھی تھی ۔یہ اسلام آباد سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے۔مری کا سفر سر سبز پہاڑوں،گھنے جنگلات اور دوڑتے رقص کرتے بادلوں کے حسین نظاروں کے ساتھ گزرتا ہے ۔گرمیوں میں اورسردیوں  میں سیاحوں کے لئے  باعث  کشش ہے۔مری سطح سمندرسے 75000فٹ بلندی پر واقع ہے۔مری ہمالیہ کے پہاڑوں کا ہی حصہ ہے مری سے بآسانی آپ کشمیر کے پہاڑوں کو دیکھ سکتےہیں ۔یہ شہر سیاحوں کا مرکز ہے گرمی اور سردیوں میں سارا سال سیاح اس شہر کا رخ کرتےہیں۔
مری جاتےہوئے کشمیر پوائنٹ کے پاس پہلی بار زندگی نے بادلوں کو چھونے کی اجازت دی تھی ،ہم نے ڈرائیور سے تھوڑی دیر گاڑی روکنے کی درخواست کی جسے اس نے بخوشی قبول کیا اور ہم نے وہاں رقص کرتے بادلوں کے منظر کو کیمرے میں ریکارڈکیا۔
مری کا جادوئی موسم
مری یقینا ایسا شہر ہے جہاں بہت سیاحتی  مقام ہیں جن میں مال روڑ مری،پتھریاٹہ،نتھیاگلی اور ایوبیہ شامل ہیں کیونکہ ہماری اگلی منز ل مظفر آباد تھی اس لئے مری کے ان موسموں کو خدا حافظ کر کے ہم نے مظفر آباد کی طرف سفر جاری رکھا۔
مظفرآباد
مظفر آباد ریاست آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے،اس کا پرانا نام "بانڈہ" ہے اور مظفر آبادکا نام "مامبہ" خاندان کے سلطان "مظفر" کے نام پر رکھا گیا تھا۔یہ شہر دریائے نیلم اور جہلم کے کنارے پر واقع ہےاوراسلام آباد اور راولپنڈی سے اس کا فاصلہ 128 کلومیڑ ہے۔اس شہر کے ایک کنارے خیبر پختونخواہ اور دوسرے کنارے مقبوضہ کشمیر کا علاقہ سری نگر واقعہ ہے۔وادی نیلم اس شہر کے شمال میں واقع ہے اور دریائے نیلم اور جہلم جس جگہ آکر ملتے ہیں اس جگہ کو ''دومیل''نام ہے۔
دومیل ۔دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے ملنے کی جگہ
دومیل سےآگے دونوں دریاؤں کے اشتراک سے ملنے والا دریا، دریائے جہلم پر  رنویر سنگھ کی مشہور تاریخی بارہ دری بھی موجود ہے اس بارہ دری کی عمارت اتنی مضبوط ہے کہ2005ءکے زلزلہ میں بھی اس عمارت میں معمولی دراڑوں کے علاوہ کوئی خاص عمارت کو نقصان نہیں ہوا تھاجبکہ مظفر آباد کی عمارتیں اور گھروں کا 50 فیصد حصہ تباہ ہوگیا تھا۔
مظفر آباد کے سیاحتی مقامات میں دومیل،رنویر سنگھ کی بارہ دری،وادی لیپہ،وادی جہلم،وادی نیلم اور پیر چناسی وغیرہ جیسے مقامات سیاحوں کے مرکز ہیں۔

آخر کار ہم مظفر آباد دوپہر 12:30 پر مظفر آباد بس اسٹنیند پہنچے اور "العتیق" ریسٹورینٹ سے مظفر آباد کی مشہور سوغات کشمیری گشتابے(جو گوشت کو پیس کر بنائے جاتے ہیں )اور کلچوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا۔
العتیق ریسٹورینٹ
"مظفر آباد کی مشہور سوغات کشمیر گشتابے"
اس مظفر آباد کی مشہور سوغات کا ذائقہ بہت لذیذ تھا۔اور کھانے کے بعد پتا چلا کے لوگ دور دور سے اس ڈش کو کھانے کےلئے مظفر آباد کا رخ کیوں کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر آرام اور کشمیری سبز چائے پینے کے بعد ہم نے وادی نیلم کے لئے ویگن کا انتخاب کیا جو ہمیں اگلے 4گھنٹوں میں آٹھمقام پہنچنانے والی تھی۔
 
 
 
 
 

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...