Saturday 13 June 2020

ایکٹیمرا انجیکشن کی اصل حقیقت

 ایکٹیمرا انجیکشن(Actemra)


پچھلے دنوں ایک نیوز نشر ہوئی کے پاکستان میں’’ ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ جو کورونا کے مریضان کےعلاج کے لئے استعمال ہوتا ہے،جس کی پہلی قیمت20.000روپےتھی،اب 3لاکھ روپےہے اور بلیک میں سیل ہورہا ہے۔
سب سے پہلےتو یہ کہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کورونا کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس ملک کی طرف سے طرح طرح کی ویکسین کو کورونا کے مریضان کےلئے مفید قرار دیا جاتا ہے۔
مثلاََ ہمارے پاکستان میں جب کرونا کا ایک بھی مریض نہیں تھا تو بعض سوشل میڈیا پر یہ خبر  گردش کرنے لگی کہ "پیاز" کورونا کے مریض کے لئے مفید ہے،پھر جب پاکستان میں کورونا کا وار شروع ہوا تو بعض پیر حضرات بھی شامل سامنے آئے جنہوں نے اس کے لئے اس کے لئے شرطیہ علاج دیافت کرنے کا دعویٰ کیا اور اپنا کاروبار خوب چمکایا۔
اس کے بعد ’’کلونجی،ادرک‘‘ کے پانی کی بات شروع ہوئی کے یہ کورونا کے مریض کو پلائے جانے سے کورونا کا مریض صحت یاب ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد ملیریا  کے مریضوں کے علاج کے لئے ’’کلورین ویکسین‘‘کو ہی ’’کوڈ19 ویکسین‘‘ کا نام دے دیا گیا ،بات یہاں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ’’سنامکی‘‘ جڑی بوٹی کو ہی کرونا کے مریضوں کا واحد حل قرار دے دیا  گیا  اس بات کا پچھلے دنوں مجھے بھی  مشاہدہ ہوا کے میں دواخانہ سے پٹھکری لینے گیا تو وہاں پر"سنا مکی" لینے والوں کا رش لگاہوا تھا۔خیرڈاکٹرزنے اس کا استعمال کرنا انسانی صحت کے لئے خطرناک قرار دیا ہے اس پر تبصرہ کرتےہوئے ماہرغذائیت نیلم اعجاز کا کہنا تھا کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا پر ٹوٹکا شیئر کرنا شروع کردیتے ہیں کہ ’’سنامکی‘‘ سے کروناکا علاج ہے ۔ان کاکہناتھا کہ ’’سنامکی قہوے کی تاثیر گرم ہےاس لئے جب اسےاستعمال کیا جاتاہے تواس سے مریض کا پیٹ خراب ہوجاتا ہے جس سےاس کے جسم میں اس کی نمکیات میں کمی واقع ہوجاتی ہے،جوکورونامریض کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سنامکی بلڈ پریشر،گردے اور جگر کےمریضوں کےلئے سنامکی کا استعمال زیادہ نقصان دہ ہوسکتاہے۔‘‘

سنامکی کی شکل

اور اب ایک اور علاج ہماری سائنسدان عوام نے دریافت کیااور وہ ایکٹیمرا انجیکشن ہے۔یہ وہ انجیکشن ہے جس کانام آج کل ہر شخص کی زبان پر ہے اوراس کی مقبولیت کا عالم یہ بھی  ہے کہ ہر کوئی اس کو اس کی اصل قیمت سے زائد پیسے دینے کے لئے تیار ہیں۔
ایکٹمرا انجیکشن مارکیٹ میں نایاب ہونے کی وجہ
    ایکٹیمرا انجیکشن 
"بی بی سی اردو" کی ویب سائیٹ پر ایک مضمون ایکٹمرا کے متعلق شائع ہوا جس میں انہوں نے ڈاکڑ سلمان ایاز  جن کا تعلق میوہسپتال لاہور سےہے ان کا انٹرویو شائع کیا جن میں ان کاکہنا تھا کہ یہ انجیکشن کورونا کے مریضوں میں اعضاء کی سوزش کوروکنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے،تاکہ ان کے اعضاء کو نقصان نہ پہنچے۔انہوں نےمزید بتایا کہ وائرس مریض کے جسم پر حملہ کرتے ہوئے ان کے بیشتر اعضاء کو نقصان پہنچاتا ہےجس سے سپسیز ہو جاتا ہے اوربعض اوقات جان لیواہوتا ہے۔اور انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ پہلے اس انجیکشن کی قیمت 50ہزار روپے تھی لیکن اب یہ انجیکشن بلیک میں 3لاکھ روپے تک فروخت کیا جارہاہے۔ان کامزید کہنا تھا کہ یہ انجیکشن صرف شدید مریضوں پر استعمال کیا جاتاہے۔اور 3دن مسلسل مریض کو لگایا جاتاہے۔
 وزارت صحت کا اعلان
ڈاکڑ یاسمین کا کہنا ہے کہ ہم ایک ہزار مریضوں پر اس کا ٹرائل شروع کررہے ہیں جس کے لئے ہم میو ہسپتال کے ڈاکڑوں کواس کا سٹاک مہیا کریں گے۔

اصل ایکٹیمرا انجیکشن کی پہچان
ڈیلی پاکستان نیوز کے ایک اینکر ابتسام چوہدری صاحب نے جنرل ہسپتال کےایک ڈاکڑ عرفان صاحب کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے سوال کیا کہ مارکیٹ میں اس وقت کئی نقلی ایکٹیمرا انجیکشن آئے ہیں اصل انجیکشن کی پہچان کیا ہے جس میں ڈاکٹر عرفان صاحب نے بتایا کہ ’’پوری دنیا میں (Roche)کپنی سپلائی کرتی ہے۔اور اس کی ویکسین پر(Roche) کپمنی کالوگو لگا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی سے بھی انجیکشن منگوائے جارہے ہیں لیکن وہ ایکٹیمرا انجیکشن نہیں ہے۔‘‘
         (Roche)کپمنی کا لوگو

https://www.facebook.com/DailyPakistan.OfficialPage/videos/936218043507470/


اصل حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایکٹیمرا انجیکشن‘‘ کورونا کی ویکسین نہیں ہے، صرف علاج میں مدد دینے کے لئےاستعمال ہوتا ہے جو مریض  تاکہ مریضوں کےاعضاء کو سوزش نہ ہو۔ اس انجیکشن کو کورونا مریضان کا واحد حل قرار دینے کی وجہ سے جس شخص کو ضرورت ہوتی وہ بھی اس سے محروم رہ جاتاہے اور اصل حق دارکےہاتھ سےدورہے۔
ڈاکڑز نے پھر آگاہ کیا کہ حالات ایسے نہیں کے عوام ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے پھریں اصل چیز احتیاط اور احتیاط سے ہی اس کا مقابلہ کیا جاسکتاہے براہ کرم عوام ماسک کا استعمال کریں اور گھروں سے بلاوجہ نہ نکلیں ۔

No comments:

Post a Comment

رتی جھیل(قسط نمبر-9)

رتی جھیل۔برکاتیہ جھیل  گزشتہ بلاگ میں مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ کیسے ہم نے "دواریاں" سے پیدل ہائیکنگ کرتے ہوئے "دومیل" گ...